بیجنگ سے بدھ 12 مارچ کو موصولہ خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق چینی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ جمعے کو ایران اور روس کے نائب وزرائے خارجہ بیجنگ میں ان سہ فریقی مذاکرات میں حصہ لیں گے، جن میں ”جوہری مسائل‘‘ پر بات چیت ہو گی
2022 ء میں یوکرین کی جنگ کے آغاز سے ہی ایران اور روس کے تعلقات گہرے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں جنوری میں اسٹریٹیجک تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط بھی ہوئے۔ ایران اور روس دونوں کے چین کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔
•••اجلاس کی تفصیلات
بدھ کے روز ایک پریس کانفرنس میں چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے کہا کہ 14 مارچ کو بیجنگ میں ہونے والے سہ فریقی اجلاس کی صدارت چینی نائب وزیر خارجہ ما چاؤشو کریں گے۔ جمعے کو ہی نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرے میں ایک اجلاس بھی ہوگا، جس میں ایران کے تقریباﹰ ہتھیاروں کے درجے کے قریب پہنچ چکے یورینیم کے ذخیرے میں ممکنہ توسیع کے حوالے سے بات چیت ہو گی
گزشتہ ہفتے اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد کہ روس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی ایران کے ساتھ رابطہ کاری میں مدد پر رضامندی ظاہر کی ہے، روس نے کہا تھا کہ اس کے نائب وزیر خارجہ سیرگئی ریابکوف نے ایرانی جوہری پروگرام کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کے بارے میں روس میں تعینات ایرانی سفیر کاظم جلالی سے تبادلہ خیال کیا ہے۔تہران طویل عرصے سے جوہری ہتھیارسازی کی اپنی مبینہ خواہش سے انکار کرتا آیا ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے ادارے IAEA نے خبردار کیا ہے کہ ایران اپنی ایٹمی تنصیبات میں یورینیم کی افزودگی کو ”ڈرامائی طور پر 60 فیصد تک‘‘ بڑھا رہا ہے، جو جوہری ہتھیار سازی کے لیے استعمال ہونے والے 90 فیصد تک افزودہ یورینیم کی شرح سے بہت دور نہیں ہے۔ایران نے 2015ء میں برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکہ کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ جامع پلان آف ایکشن پر اتفاق کیا تھا، جس کے بدلے میں تہران کے خلاف عائد پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں۔ لیکن واشنگٹن نے 2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں امریکہ کی ایران کے ساتھ اس جوہری معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا۔(ڈی ڈبلیو)