ایک نقطہ نظر: ابوفہد ندوی
میں لائیو ڈبیٹ تو نہیں سن سکا، مگر بعد میں یوٹیوپ پر پوری ڈبیٹ سنی اور دوسروں کی طرح مجھے بھی خوشگوار حیرانی ہوئی، ڈبیٹ تقریبا ہر سطح پر قابل ستائش تھی۔
ڈبیٹ کے تعلق سے میری معروضی رائے یہ ہے کہ مفتی صاحب نے ابتدا میں اچھی گفتگو کی، مگر آخر میں وہ کسی قدر گھرتے ہوئےبھی نظر آئے، خاص کر غزہ کے سوال پر۔ غزہ پر سوال بظاہر کتنا بھی غیر متعلق کیوں نہ معلوم ہو مگر وہ خدا کے وجود کے سوال کے ضمن میں ہی تھا۔اس لیے سوال کو غیر متعلق نہیں کہا جاسکتا۔
جاویداختر صاحب نے یہ اچھا کیاکہ انہوں نے الحاد ( atheism) کے مقابلے میں سارے مذاہب کو پیش نظر رکھا، نہ کہ صرف اسلام کو، اگر وہ صرف اسلام کو ٹارگیٹ کرکے گفتگو کرتے تو شاید ڈبیٹ اتنی پرسکون نہ رہ پاتی۔ اسی باعث آخر میں زیادہ تر سوالات جاوید صاحب سے ہی کیے گئےکیونکہ سامعین میں زیادہ تعداد مذہبی لوگوں کی ہی تھی۔جاوید صاحب کے مقابلے میں مفتی صاحب ذرا aggressive نظر آئے ، تاہم وہ عزت واحترام کے ساتھ بات کررہے تھےاور اس سے ناظرین میں یہ مسیج گیا کہ مذہبی حضرات کتنےpolite اورwell behaved ہوتے ہیں۔
تاہم تمام سوالات اور جوابات میں کوئی نیاپن نہیں تھا، سارے سوالات اورسارے جواب قدیم ہی تھے، البتہ مفتی صاحب منطقی اور فلفسیانہ اصطلاحات انگریزی میں بول رہے تھے اس لیے لوگوں کو خاص کر مدارس کے طلبہ کو یہ زیادہ اچھا لگا۔مفتی صاحب کے پاس موجودہ دور میں اور اس ڈبیٹ میں بھی یہ بہت بڑا پلس پؤاٹنٹ ہے کہ وہ انگریزی زبان سے اچھی واقفیت رکھتے ہیں۔ مدارس کے طلبہ کے لیے یہی ایک بات انہیں ہیرو سمجھنے اور بنانے کے لیے بہت کافی ہے۔جیسا کہ کئی لوگوں نے اپنے تبصروں میں لکھا کہ مفتی صاحب کے زیادہ تر گفتگومنطق اورفلسفیانہ بنیادوں پر استوار تھی اور جاوید اختر صاحب کے لیے یہ مائنس پوائنٹ تھا، کیونکہ وہ ادب، سنیما اور تاریخ کے آدمی ہیںمنطق اور فلسفے کے آدمی نہیں ہیں، اسی لیے ایسا ہوا کہ انہیں بعض اصطلاحات کو مکمل طورپر سمجھنے میں دشواری ہوئی، حتی کہ وہ مفتی صاحب کی وضاحتوں کے بعد بھی کنفیوزڈ ہی دکھائی دئے۔
پروگرام میں موجود بعض افراد کا یہ تبصرہ بڑا معروضی اور مبنی بر حقیقت ہے کہ جاوید صاحب نے اس پروگرام کو اردو کا کوئی پروگرام سمجھ لیا تھا۔جاوید صاحب کچھ خاص تیاری کرکے نہیں آئے تھے۔ شاید انہوں نے اس کی کچھ خاص ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ وہ بار بار ایک ہی کتاب کا حوالہ دے رہے تھے۔ایک جگہ میجوریٹی کے ذریعہ ڈیسائڈ کرنے کے سوال پر جاوید اخترصاحب پھنستے ہوئے نظر آئے مگر مجھے لگتا ہے کہmediator نے ان کی مدد کی اور بحث کو روک دیا۔
جاوید صاحب نے ایک جگہstupid کا لفظ استعمال کیا اور جواب میں مفتی صاحب نے بھی atheismکو سب سےبڑی stupidity قراردیا۔ مگر جاوید صاحب عموما خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے نظر آئے اور اسی خوش اخلاقی کے مظاہرے پر انہوں نے ڈبیٹ کو ختم کیا۔
پوری ڈبیٹ میں جاوید صاحب خود کو ثابت ہی نہیں کررہے تھے، وہ صرف اعتراض کررہے تھے، خدا ہے تو یہ کیوں ہے اور خدا ہے تو وہ کیوں نہیں ہے۔ان کے سوالات منطق وفلسفے کے بکھیڑوں میں الجھے ہوئے نہیں تھے ان کے سوالات معاشرتی او ر سماجی تھی۔ ان کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ سائنسی ایجادات اور ترقی نے ان کے ذہن ودماغ کو بہت متاثر کیا ہے۔
موجودہ وقت میں اس ڈبیٹ کا ایک اچھا اور مثبت پوائنٹ شاید یہی ہے کہ لوگوں کو یہ معلوم ہوگیا کہ مذہبی لوگ بھی اچھی ڈبیٹ کرسکتے ہیں۔یقینا الحاد کا دائرہ وسیع ہورہا ہے، غالبا الحاد دنیا کی سب سے بڑی مذہبی اکثریت یعنی christianity میں زیادہ پھیل رہا ہے، مسلمان بھی اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی الحاد سے متاثر ہورہے ہیں مگر ان کا نمبر دوسرا ہے، اس معاملے میں پہلے نمبر پر عیسایت ہے۔
میرے خیال میں الحاد کی پانچ بڑی بنیادیں ہیں۔ ایک شتر بے مہار آزادی کی خواہش جس میں شہوت رانی سر فہرست ہے۔ دوسری خدا اور مذہب کے حوالے سے انسانی ذہن کو اس کے سوالات کا درست اور بروقت جواب کانہ مل پانا۔تیسری مادی اور ذاتی منفعت ۔ چوتھی مذاھب کے درمیان خانہ جنگی، مذھبی افراد کی طرف سے بے جاسختیاں اوربعض اوقات بداخلاقی کا مظاہرہ ۔ اسی بات کو جاوید صاحب نے اس طرح بیان کیا کہ دنیا کے جن علاقوں میں مذہبی لوگ زیادہ ہیں، انتشار، بدامنی، ڈکٹیٹر شپ اور افراتفری زیادہ ہے۔ مگر جاوید صاحب کی یہ بات ان کے غلط تاثر اورغلط تجزیے کا نتیجہ ہے۔پانچویں بڑی وجہ جدید تعلیم، جدید سماج اور خاندانی اثرات ہیں۔ غالبا یہی پانچ بڑی بنیادیں ہیں جو کسی انسان اور خاص طورپر مسلمان کو الحاد کی طرف لے جاتی ہیں۔
اور الحاد یا کسی بھی بے دینی کا مقابلہ کرنے کے لیے خود اپنے گھر میں بھی اور گھر سے باہر بھی سب سے بیسٹ، کارآمد اور مؤثر طریقہ دعوت کا ہی طریقہ ہے۔ قرآن میں پہلے مرحلے پر اسی’ دعوت ‘ کا ذکر ہے:
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (آل عمران: ٦٤)
اوراوپر مذکور الحاد کی دوسری بڑی وجہ کو کاؤنٹر کرنے کے لیے’ مجادلہ ‘کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہےاور یہی واحد وجہ بین المذاہب ڈبیٹ اور مکالموں کے لیے جواز فراہم کرتی ہیں۔ تاہم اس طرح کی ڈبیٹ قوم وملت کے لیے کتنی مفید اور کتنی مضر ہوسکتی ہیں اس کا فیصلہ وقت، مقام اور حالات پر ہی منحصر ہے۔ہمارے یہاں جس طرح کے مناظروں کا چلن رہا ہے، خود اپنوں کے ساتھ یعنی بین المسالک مناظرے اور غیروں کے ساتھ بھی یعنی بین الادیان مناظرے، ان سے امت کو کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوا۔خاص کر ان علاقوں اور ممالک میں جہاں کا ماحول زیادہ مذہبی تھا۔
آج کی ڈبیٹ کا یہ بھی غالبا ایک مثبت پہلو ہی رہا کہ ڈبیٹ ہارجیت کے واضح اعلان کے بغیر ہی اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ کیونکہ واضح اعلان سےمخالفین میں ضد اور ہٹ دھرمی کا ذہن بنتا ہے۔ اس لیے ڈبیٹ کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہوگی کہ جاوید اختر صاحب اور دیگر ملحدین جنہوں نے اس ڈبیٹ کودیکھا اورسنا وہ غوروفکر بھی کریں اور اپنی سوچ کا زاویہ بدلنے کی کوشش کریں۔
اگر مخالف شخص اور اس کے ہمنوا شکست کے باوجود ڈبیٹ کے مقام سے یہ تہیہ کرکے اٹھتے ہیں کہ وہ اگلی بار مزید تیاری کے ساتھ آئیں گےاور دوبارہ پھر ڈبیٹ کریں گے تو یہ ڈبیٹ کا مثبت میسیج نہیں ہے، مثبت میسیج اور پیغام یہی ہے کہ مخالف اور سامعین غوروفکر پر مجبور ہوجائیں بلکہ اپنے ذہنی سانچے اور غوروفکر اور استدلال کے سلیکٹواور مصنوعی زاویہ نظر سے نکل آئیں۔اگر کسی ڈبیٹ اور مناظرے و مکالمے سے غوروفکر کی روایت قائم نہیں ہوتی تو ایسی کسی بھی مناظرے، مکالمے اور ڈبیٹ کا کچھ حاصل وصول نہیں۔مناظرے ہوتے رہے ہیں اور آگے بھی ہوتے رہیں گے، مگر افادیت اور مضرت وقت، مقام اور حالات ہی طے کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔










