رانچی :(ایجنسی)
جھارکھنڈ میں حکومت چلارہے جے ایم ایم اور کانگریس لیڈروں کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔ دو ایسے واقعات ہوئے ہیں جن سے دونوں پارٹیوں کے لیڈروں کی راتوں کی نیندیں اڑگئی ہیں۔ پہلا واقعہ مہاراشٹر کا ہے۔ وہاں تین پارٹیوں کے اتحاد میں سے سرکار چلا رہی شیوسینا میں ہی ٹوٹ ہوگئی ہے اور اس کے تقریباً دو تہائی ایم ایل اے نے بغاوت کر دی ہے۔ اگر مہاراشٹر میں بی جے پی کا آپریشن لوٹس کامیاب ہوتا ہے تو جھارکھنڈ میں بھی یہ آپریشن ہوگا۔ جھارکھنڈ میں حکومت چلانے والی جے ایم ایم کے ٹوٹنے کے امکانات کم ہیں، لیکن اس کی اتحادی کانگریس کے کئی ایم ایل اے پہلے ہی بی جے پی سے رابطے میں ہیں اور جس طرح مہاراشٹر میں دو کوششوں کے بعد وہ تیسری بار کامیاب ہوئی ہے، اسی طرح دو ناکام کوششیں ہو چکی ہیں ، اگلے چند دنوں میں تیسری کوشش ہو سکتی ہے۔
دوسرا واقعہ قبائلی صدرجمہوریہ بنانے کا ہے۔ بی جے پی نےجھارکھنڈ کی گورنر رہیں اڑیشہ کی سنتھل قبائلی برادری سے تعلق رکھنے والی دروپدی مرمو کو صدر جمہوریہ عہد ہ کاامیدوار بنایا ہے ۔ ان کی جیت یقینی ہے۔ اس ایک فیصلے سے بی جے پی نے قبائلی مخالف ہونے کی اپنی تصویر بدل دی ہے۔ جھارکھنڈ کے قبائلی ایم ایل اے کو بھی اب بی جے پی کے ساتھ جانے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ خیال رہے کہ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی نے 25 سیٹیں جیتی تھیں جن میں سے صرف دو قبائلیوں کو کامیابی ملی تھی۔ بعد میں، بابولال مرانڈی کے شامل ہونے کے بعد، اس کے قبائلی ایم ایل ایز کی تعداد تین ہو گئی۔ پہلے غیر قبائلی وزیر اعلیٰ بنانے سے بی جے پی کی شبیہ قبائل مخالف بن گئی تھی جو اب تبدیل ہو گی۔
اسی لیے اب سے جھارکھنڈ میں قیاس آرائیوں کا دور شروع ہو گیا ہے۔ کانگریس ایم ایل اے پارٹی ہائی کمان کی کال پر بدھ کو دہلی آئے تھے، لیکن ریاست میں یہ چرچا شروع ہوا کہ وہ دہلی میں بی جے پی لیڈروں سے ملاقات کریں گے۔ تاہم ’آپریشن لوٹس‘ کے کامیاب نہ ہونے کی وجہ سے ایسی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے کہ ریاست میں ایک سیٹ پر ضمنی انتخاب ہو رہا ہے، جس پر کانگریس کی جیت کا قوی امکان ہے۔ اگر کانگریس جیت جاتی ہے تو اس کے ایم ایل ایز کی تعداد بڑھ جائے گی اور پھر اس کے دو تہائی ایم ایل ایز کو توڑنا تھوڑا مشکل ہوگا۔