•••علامہ محمد رضی الاسلام ندوی
ابھی رمضان المبارک شروع ہونے میں چند دن باقی ہیں ، ابھی سے بہت سی خواتین اور مرد حضرات کی طرف سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا خواتین کسی خاتون کی امامت میں نمازِ تراویح پڑھ سکتی ہیں؟ اور کیا خواتین نمازِ تراویح میں شرکت کے لیے مسجد جا سکتی ہیں؟ ان سوالات کے پیچھے تنازعات کی خبریں ہیں – کچھ لوگ خواتین کو باجماعت نمازِ تراویح سے بہ جبر روک رہے ہیں – بعض مقامات پر خواتین کئی برس سے باجماعت تراویح پڑھ رہی تھیں ، لیکن اب انہیں روکا جارہا ہے – ایک صاحب نے لکھا ہے کہ کچھ خواتین تراویح کی نماز مسجد میں ادا کرنا چاہتی ہیں – اس کے لیے مسجد کمیٹی سے گزارش کی گئی – کمیٹی نے مان بھی لیا ، مگر کچھ لوگ اسے غلط سمجھتے ہیں اور مخالفت کر رہے ہیں – اس صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ خاموش رہیں یا پولیس میں شکایت کرکے پروٹیکشن لے کر خواتین کو مسجد میں تراویح کی نماز پڑھنے کی سہولت فراہم کریں؟ میں نے انہیں منع کیا کہ معاملے کو پولیس تک لے جانے سے اجتناب کرنا چاہیے اور تنازع سے بچتے ہوئے خواتین کے لیے الگ کہیں تراویح کا انتظام کردینا چاہیے – مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلے کی کچھ شرعی وضاحت کردی جائے :
اس سے قبل اس پہلو کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ الحمد خواتین اور لڑکیوں میں دینی بیداری آئی ہے اور ان کے اندر دین کی تمام تعلیمات پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہوا ہے – وہ قرآن کی مجلسیں منعقد کررہی ہیں ، قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کررہی ہیں اور اپنے روحانی ارتقاء کی بھی تدابیر اختیار کررہی ہیں – ان کے اس جذبے کی قدر کرنی چاہیے اور انہیں ہر ممکن سہولیات فراہم کرنی چاہیے –
فقہاءِ احناف کہتے ہیں کہ عورتوں کی جماعت ، خواہ اس کی امامت کوئی عورت ہی کیوں نہ کرے ، فرائض اور نوافل دونوں میں مکروہِ تحریمی ہے ۔ (الدر المختار : 565/1) اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ امام کا مقتدیوں سے آگے رہنا واجب ہے ۔ چوں کہ عورت وسطِ صف میں کھڑی ہوتی ہے ، اس لیے ترکِ واجب لازم آتا ہے ۔ یہی رائے مالکیہ کی بھی ہے کہ ان کے نزدیک کسی عورت کا عورتوں کی جماعت کی امامت کرنا درست نہیں ہے ۔ البتہ شوافع اور حنابلہ کے نزدیک عورت دوسری عورتوں کی امامت کرسکتی ہے ۔ کتبِ احادیث سے ثابت ہے کہ امہات المومنین حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما عورتوں کی جماعت کی امامت کرتی تھیں ۔ وہ صف سے آگے کھڑی ہونے کے بجائے اس کے وسط میں کھڑی ہوتی تھیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبه ، 88/2-89 روایت نمبر 4989 ، 4991 – یہی فتویٰ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے ۔ (مصنف عبد الرزاق : 140/3 ، روایت نمبر : 5083) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت نماز میں عورتوں کی امامت کرسکتی ہے ۔ حضرت ام سلمہ کے عمل کو نقل کرنے والی حضرت ام حسن تابعیہ ہیں ۔ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ عمل منسوخ ہوگیا تھا – اسی طرح فقہ حنفی میں عورتوں کے نماز ادا کرنے کے لیے مسجد جانے کو مکروہِ تحریمی کہا گیا ہے – جب کہ دوسرے فقہاء اسے جائز قرار دیتے ہیں – دو برس قبل مجلس تحقیقات شرعیہ ، دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے فقہی سمینار میں یہ مسئلہ زیرِ بحث آیا تھا – غور و خوض کے بعد خواتین کے مسجد میں نماز کی ادائیگی کو مباح قرار دیا گیا تھا – فقہی اختلافات کو تنازع کا موضوع نہیں بنانا چاہیے – مسالک کے اختلاف میں معتدل رویّہ یہ ہے کہ ہر شخص آزاد ہے ، جس مسلک پر چاہے عمل کرے ، لیکن اسے دوسروں پر اپنے پسندیدہ مسلک کو تھوپنے کی اجازت نہیں ہے – تمام فقہاء نے مسالک کے اختلاف کو حق و باطل اور جائز ناجائز کا پیمانہ نہیں بنایا ہے ، بلکہ صرف افضل اور غیر افضل کی بات کہی ہے – کسی مسلک کا فقیہ یہ نہیں کہتا کہ دوسرا مسلک باطل اور ناجائز ہے – اس بنا پر اس معاملے میں شدّت پسندی کا مظاہرہ کرنے سے بچنا چاہیے –
معتدل رویّہ یہی ہے کہ اگر مسجدوں میں تراویح کی نماز ہو رہی ہو اور وہاں عورتوں کے لیے بھی انتظام ہو تو وہ اس میں شرکت کر سکتی ہیں ۔ لیکن اگر گھروں میں تراویح کی نماز ہو رہی ہو اور کوئی خاتون حافظہ قرآن ہو ، یا اسے قرآن کا خاصا حصہ یاد ہو تو وہ قرآن سنا سکتی ہے اور اس کی امامت میں عورتیں نماز پڑھ سکتی ہیں ۔ حافظۂ قرآن نہ ہو تو بھی عام حالات میں بعض فقہاء کے نزدیک ایک عورت دوسری عورتوں کی امامت کر سکتی ہے ۔ اس لیے اس سے روکنا مناسب نہیں ہے –