مسلمانوں کا سب سے معتبر اور باوقار مشترکہ پلیٹ فارم مسلم پرسنل لاء بورڈ نے دہائیوں کے بعد ہی صحیح مسلم قیادت کو سڑک پر اترنے اور دھرنا و مظاہرہ پر آمادہ کرلیا ہے معاملہ بھی جان ومال کی سلامتی سے زیادہ اہم ـ یہ ملت کے ساتھ بورڈ کے وجود کا بھی مسئلہ ہے دھرنا و مظاہرہ کی تاریخ کے بار بار بوجوہ التوا سے بھلے ہی مومنٹم ٹوٹتا ہو مگر اس کے سبب ملت کو خطرے میں نہیں ڈالا جاسکتا ہے ـ یہاں ایک بات نے سب کی توجہ مبذول کی ہے اور اس کا نوٹس بھی لیا گیا
بورڈ نے سرعام بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور آندھرا کے سی ایم چندرابابو نائیڈو کی جم کر تعریف کرکے چونکادیا کیونکہ اس وقت یہی دونوں مسلمانوں کے خلاف ویلن کا رول ادا کررہے ہیں ـاگر یہ وقف بل کی مخالفت میں کھڑے ہوجاتے تو سارے جوڑ توڑ کے باوجود سرکار بل پاس نہیں کرسکتی
اس تلخ حقیقت کے باوجود بورڈ نے ان دونوں لیڈروں کو جو اس بل میں مودی کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں کو اقلیت دوست اور مسلمانوں کا پرجوش ہمدرد قرار دیا نیز اقلیتوں کے حوالے سے ان کے اقدامات و خدمات جلیلہ کو بہت خوبصورت الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ـ
صاحبو!بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی دامت برکاتہم نے گیارہ اپریل کو دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں بورڈ کی پریس کانفرنس میں دھرنا و مظاہرہ کی تاریخ میں تبدیلی کے اعلان کے دوران یہ موقف اختیار کیا ـ,۔نتیش کمار اور نائیڈو کے لیے اظہار ممنونیت سے ایسا لگا کہ آج بھی بورڈ کی تمام تر امیدیں نیتیش اور نائیڈو سے ہی وابستہ ہیں،ان کے لیے دل بہت نرم ہے مولانا مجددی نے اپنے خطاب ہر مغز میں زور دے کر کہا کہ ہمیں امید ہے کہ یہ دونوں سرکار کو ایسا کوئی قدم اٹھانے سے روکنے میں کامیاب ہوں گے جو مسلمانوں کے لیے مضر ہو ـ حضرت دامت برکاتہم یہ بات یقیناً جانتے ہوں گے کہ بل کابینہ سے منظور ہوگیا ہے جس میں نتیش اور نائیڈو کی پارٹی کے وزیر با تدبیر موجود ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں کو چوالیس ترمیمات پر کوئی اعتراض نہیں ہے ـ
بورڈ کی یہ خوش گمانی ہوسکتا ہے کہ وعدوں کی بنیاد پر ہوں جن کا عوام کو ابھی ہتہ نہیں ہے ،مگر یہ بات ریکارڈ پر لانا ضروری ہے کہ ‘اقلیتوں کے ہمدرد و مسیحا نتیش کمار نے تادم تحریر بورڈ کے وفد کو ملاقات کا وقت تک نہیں دیا جس کا اعتراف مذکورہ پریس کانفرنس میں کیا گیا البتہ ملی کونسل اور امارت شرعیہ کے وفد کو ان سے ملاقات کا شرف ضرور حاصل ہوا مگر وہ بھی ٹھوس یقین دہانی حاصل نہیں کرسکے ـ سشاسن بابو کی حد درجہ انکساری یا بے کسی کا تو اب یہ عالم ہے کہ پی ایم تو دور وہ اپنے بہت جونئیر روی شنکر پرساد کے پاؤں چھونے سے بھی گریز نہیں کرتے ، بورڈ کے جنرل سکریٹری دامت برکاتہم کو ان سے اتنی امیدیں کیوں ہیں وہی جان سکتے ہیں ـ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ،؟
اقلیتوں کے دوسرے ہمدرد نائیڈو صاحب مرکزی حکومت کو چلارہے ہیں ان کے مینی فیسٹو کے علی الرغم جس میں مسلمانوں کے تعلق سے بعض وعدے کیے گیے ہیں ـ بورڈ کو وہ کتنا وزن دیتے ہیں ،اس رویہ سے اندازہ لگا لیں کہ انہوں نے بورڈ کو وقت دینے کے باوجود اسے چارگھنٹے انتظار کرایا ، یعنی اگر بارہ بجے کا وقت تھا تو چار بجے تک ریسپشن پر بورڈ کا وفد انتظار کی اذیتوں سے گزارا گیا ـ,اس وفد کی قیادت جنرل سکریٹری دامت برکاتہم ہی نے فرمائی تھی وہ مزید ملاقات کے خواہاں ہیں جس کا اظہار پریس کانفرنس میں کیا – حالانکہ ان باتوں کا اور سمجھنے سمجھانے کا وقت گزر چکا ہے ـ خوش گمانی اور یقین اچھی بات ہے آخری سانس تک رہنی چاہیے مگر دوسروں کے اقدامات کے بھروسے کوئی لڑائی نہیں جیتی جاسکتی ـ پریس کانفرنس کی باڈی لینگویج حوصلہ افزا نہیں تھی تاریخ کا التوا اچھا قدم ہے مگر یہ ظاہر کرتا ہے کہ بورڈ میں ہوم ورک اور تال میل کی بہت کمی ہے آمادگی میں جھجھک ہے اور شاید جو کچھ کیا جارہا ہے وہ مسلم کمیونٹی کے دباؤ اور ٹھوس اقدامات کے مطالبہ کا اثر ہے بورڈ کو بلاشبہ اب بھی سواد اعظم کا اعتماد حاصل ہے اور ہونا بھی چاہیے مگر یہ اعتماد کسوٹی پر کھرا اترنے کا منتظر ہے ایسے موقع پر مودی سرکار کے پائے چوبیں کی فراخدلانہ تعریف کا منظر اور پس منظر ناقابل فہم ہے یہ بورڈ کے لیے بھی آخری موقع ہے کہ وہ کچھ کر گزرے ،پرانے تجربوں کے زخم ابھی ہرے ہیں ـبورڈ کی نیک نامی ،اعتماد بھروسہ سب کچھ داؤ پر لگا ہے نتیجہ ہمارے حق میں ہی ہو یہ ضروری تو نہیں نورا کشتی نہیں بلکہ پہلوان بیتنے کے لیے پورا دم تو لگایے ،لڑتا ہوا نظر تو آئے یہ بھی ضروری ہے ،قنوت نازلہ پڑھنے کا مشورہ بہت اچھا ہے ،مگر یقیناً یہ سب کچھ نہیں ہے ـ,اب عملی اعتکاف کے ساتھ قیادت کے واقعی قیادت ہونے کے مظاہرے مطلوب ہیں ـ قوم منتظر ہے ـ ہر رات کی صبح ہے بھلے کتنی طویل ہو – بورڈ کے لیے نیک خواہشات کے ساتھ ،رہے نام اللہ کاـ