تحریر: ڈاکٹر حسن رضا
یوپی کا الیکشن سات مراحل سے گزرتے ہوئے کل اختتام پذیر ہوگیا۔ اب لوگ قیاس کے گھوڑے انداز ے کے اڑن کھٹولے اور ایگزٹ پول کے نتیجے پر بحث کر رہے ہیں ۔یہ بحث سیاسی کم جذباتی اور تجارتی زیادہ ہے ۔
فالتو عقل والوں کو اس بحث کے لئے چھوڑ دینا چاہیے ترک لا یعنی ہمارا دینی اصول ہے۔ہمیں تو بس اب ایک دو دن دم لے کر آگے کے لئے تیاری کرنی چاہئے۔
سیاست کارجہاں بانی کا نام ہے ۔اور جو لوگ اللہ کے لئے یہ کام کرنا چاہتے ہیں ان کو فرصت کہاں ہزار کام ہیں مردان حر کو دنیا میں ۔الیکشن سیاست تو اس کا ایک چھوٹا اور اہم جزو ہے ۔الیکشن میں ہمیں جو کرنا تھا وہ کرچکے ۔اگر کچھ کوتاہیاں اور کمزوریاں ہو ئیں ، تو اس کا ضرور جائزہ لینا چاہیے۔ داخلی احتساب بھی ضروری ہے ، لیکن یاد رہے الیکشن کے ذریعہ آئندہ پانچ سال کے لئے نئی سرکار بنتی ہے توہمارے مسائل بیٹھے بیٹھے حل نہیں ہوجائیں گے۔ اپنے مسائل کے حل کے لئے جو نئی سرکار بنے گی ۔ اس کے مطابق حکمت عملی وضع کرنی پڑے گی ۔یہ نہیں سوچنا چاہیےکہ اکھلیش بھیا آجائیں گے یا بہن مایا وتی سنگھاسن پر بیٹھ جائیں گی تو سیاست و کار ریاست سے چھٹی مل جائے گی اور یہ لوگ جس تن دہی سے ووٹ مانگ رہے تھے اسی گرم جوشی اور خلوص سے وعدے بھی پورا کریں گے۔ ہرگز نہیں۔
واضح رہے سرکار کی پوری مشینری اور اس کے کارندے وہی رہیں گے عوام کے نو منتخب نمائندے اسی مشینری اور نظام کا حصہ بن جائیں گے ۔اس طرح وہ اس مشینری اور نظام کے پرزے کی حیثیت سے کام کریں گے ۔ حکومت بناتے ہی ان کی دو متضاد حیثیت ہو جائے گی وہ ’جن تنتر ‘ میں جن کامطلب عوام کے نمائندے اور تنتر کے پرزے رہیں گے ۔حکومت کی پوری مشنری اس کے مختلف کل پرزے اور جن لوگوں کے مفادات اس سے وابستہ ہیں وہ ادارے سب زور لگایں گے کہ یہ نو منتخب عوام کے نمائندے عوام کی خدمت کے بجائے مخصوص نظام کے مفاد میں کام کریں ۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ جن وعدوں پر ووٹ دیا گیا ہے وہ وعدے پورے کیے جائیں تو گلے شکوے ملی وفود کی صرف ملاقاتوں سے کام نہیں چلے گا ۔
اگر ہم متحرک نہیں رہے تو یقین مانئے پانچ برس ملت جہاں کھڑی ہے وہیں رہ جائے گی ۔اگر سرکار میں تبدیلی نہیں ہوئی تو پانچ برس بعد ملت کی حالت بد سے بدتر ہو جائے گی۔ لہٰذا ہر دو صورتوں میں یعنی حکومت جس کی بھی بنے جمہوریت میں جمہور کی ذمہ داری حالات کو بہتر بنانا ہو یا بدتر ہونے سے بچانا ہو کبھی ختم نہیں ہوتی ۔میدان عمل اور طریقہ کار صرف بدل جاتا ہے ۔مسلمانوں کا سیاسی مسئلہ یہی ہے کہ وہ الیکشن میں خوب جوش جذبات کے ساتھ حصہ لیتے ہیں لیکن سرکار بننے کے بعد ان کی سیاست ختم ہوجاتی ہے ان کے الیکشنی لیڈران پھر آئندہ موسم بہار کے انتظار میں اپنی اپنی راہ لیتے ہیں ۔ان ملی لیڈران میں بہت سارے موسمی پرندوں کی طرح الیکشنی جھیل میں اپنی اپنی غذاؤں کی تلاش میں آئے تھے اور جب الیکشن کا تالاب خشک ہوا اپنے اپنے درختوں پر بسیرا کرنے کی راہ لیتے ہیں ۔
کچھ ملی افراد اور جماعتیں الیکشن میں اتنی ہی دلچسپی لیتی ہیں جتنا بٹیر اور پتنگ لڑانے میں محلے ٹولے کے منچلے لڑکے حصہ لیتے ہیں۔ پھر ان کا ایشو ختم ہو جاتا ہے۔ الیکشن کے بعد سیاسی لائحہ عمل کے بغیر کوئی گروہ جمہوریت میں سیاسی طور پر مضبوط نہیں ہوسکتا ہے ۔ہم نے کسی کو ووٹ کیوں دیا ہے یا کسی کو ووٹ کیوں نہیں دیا ہے ۔ دونوں بات بالکل واضح ہونی چاہئے۔ جن کو ووٹ دیا ہے ان سے ہم کیا حاصل کرناچاہتے ہیں۔اس کو حاصل کرنے کے لئے اجتماعی لائحہ عمل اورجدوجہد دونوں ضروری ہے اور جس کو ووٹ نہیں دیا ہے اس کی کیا وجہ ہے۔اگر مخالف گروہ نے حکومت بنائی تو اس سے سیاسی بچاؤ کی کیا تدابیر، ترکیب اور کیالائحہ عمل ہو وہ بھی ہمارے پاس ہونا چاہیے ۔لہٰذا یوپی کی امن وجمہور پسند اور مذہبی رواداری عوامی ترقی میں یقین رکھنے والی عوام کا امتحان الیکشن کے بعد بھی جاری رہے گا۔جس جوش خروش اور ہوش گوش سے ہم الیکشنی سیاست میں حصہ لیا اسی جذبے حرارت اورسیاسی بصیرت و سمجھ کے ساتھ مابعد الیکشنی سیاست میں بھی متحرک رہنا چاہئے، بس انداز اصول ،طریقہ کار اور میدان عمل بدل جائے گا۔ اب اس رخ پر ملت کے باشعور طبقے کو کام شروع کردینا چاہئے ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)