جائزہ:محمد خالد (لکھنؤ)
—————————-
آج 12 ربیع الاول ھے جس کو نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کے یوم پیدائش کے طور پر منایا جاتا ھے.
جبکہ اکثر اہل علم اور سیرت نگار حضرات نے 9 ربیع الاول کو یوم پیدائش کا ہونا قرار دیا ھے.
قرآن و سنت کی روشنی میں کسی بھی شخص کی پیدائش کو کسی بھی لحاظ سے فوقیت یا اہمیت حاصل نہیں ھے. اگر ایسا ہوتا تو انسانی تاریخ میں محمد صل اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے کا ہونا ممکن نہیں تھا جس کا اس کے اصحاب کے ذریعے سب سے زیادہ اہتمام کے ساتھ یوم پیدائش منایا جاتا.
آپ صل اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی آپ ص سے والہانہ محبت کی کوئی نظیر انسانی تاریخ میں موجود نہیں ھے. اس کے باوجود نہ صرف آپ صل اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں بلکہ اس کے بعد تقریباً چار ساڑھے چار سو سال تک کی تاریخ میں آپ صل اللہ علیہ وسلم کی یوم پیدائش منانے کا کوئی واقعہ موجود نہیں ھے. اس کے برعکس جو چیز موجود تھی وہ تھی آپ صل اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت و عقیدت کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کا ہر امتی اپنی زندگی کے تمام معاملات میں یہ دیکھنے کی فکر میں رہتا تھا کہ اس کے رہبر و رہنما صل اللہ علیہ وسلم نے کس کام کو کس طریقے پر انجام دیا تھا اور میری نجات بھی اسی طریقے کو اختیار کرنے سے ہی ممکن ہو سکے گی.
اسی کو علامہ اقبال صاحب نے اس طرح پیش کیا ھے کہ؛
*کی محبت سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں*
*یہ جہاں چیز ھے کیا لوح و قلم تیرے ہیں*
گزشتہ چند روز سے علامہ کا یہ شعر خوب پیش کیا جا رھا ھے مگر کیا ہمارے دلوں میں نبی رحمت صل اللہ علیہ وسلم کے لئے وہ احساس موجود ھے جو ہمیں اس بات پر مجبور کرے کہ ہم اپنے معاملات زندگی میں انجام دینے والے عمل کو سیرت طیبہ میں دیکھنے اور اختیار کرنے کی کوشش کر سکیں. یہ تو خود فریبی کی وفا و محبت ھے. جس عمل کا اللہ کی ہدایات اور اللہ کے محبوب صل اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ سے کوئی تعلق نہ ہو، اسے انجام دینا کس بنیاد پر "وفا” کہا جا سکتا ھے.
اس وقت ہمارے درمیان سب سے بڑی بُرائی "جھوٹ” ھے جس کو تمام برائیوں کی ماں کہا گیا ھے.
آج کی رات شہر کے مختلف علاقوں میں سیرت النبی صل اللہ علیہ وسلم کے جلسوں کا اہتمام کیا گیا تھا، تقریباً ہر جلسہ عشاء کی نماز کے بعد ہی شروع ہوتا ھے اور فجر کی نماز کے وقت مکمل ہونے والے جلسوں کی رپورٹ آج کے اخبار میں موجود ھے جو کہ رات دس بجے کے قریب شائع ہو جاتا ھے.
اس صریح جھوٹ سے صادق و امین محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی کیا کسی بھی طرح نسبت ممکن ھے. شہر کے تقریباً سبھی بڑے علماء حضرات کے نام ان جلسوں کی رپورٹ میں شامل ہیں.
میرا اپنے دینی بھائیوں سے بڑا عاجزانہ سوال ھے کہ اگر یوم محشر اللہ رب العزت کا سوال ہوا کہ "کس کی اتباع میں زندگی گزار کر آئے ہو” تو پھر ہمارے پاس کیا جواب ہوگا، کیوں کہ ہم نے تو اپنی پسند اور روایات کے مطابق زندگی گزاری ہوگی. اور پھر وہاں تو ہمارے جسم کے اعضاء ہی گواہی دے رھے ہوں گے.
خالقِ کائنات اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صل اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں جو دین عطا فرمایا ھے وہ نہ صرف طریقہ عبادت ھے بلکہ وہی ہمارے لئے طریقہ زندگی ھے جس کا بہترین اور لاثانی نمونہ نبی رحمت صل اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں موجود ھے.
اس لئے مسلمان کے لئے کسی بھی دوسری قوم و مذہب کے طور طریقوں کو اختیار کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ھے.
اللہ رب العزت ہم کو شیطانی فتنوں سے محفوظ رکھے اور اپنے دین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
ہر کلمہ گو مسلمان کو یہ بھی یقین رکھنا چاہیے کہ شیطان مردود کا وجود صرف و صرف ان انسانوں کو گمراہ کرنے کے لئے ھے جو کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی جدوجہد کے ساتھ زندگی گزار رھے ہوں گے. یعنی کہ ہم مسلمان ہی شیطان کے نشانے پر ہیں، دوسرا کوئی نہیں