شہر ممبئی کی ایک معروف سیاسی شخصیت بابا صدیقی کو سنیچر کی شب گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا ہے۔ بابا صدیقی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی بالی وڈ کے کئی اداکاروں سے دوستی تھی اور وہ ماہِ رمضان کے دوران اپنی بڑی افطار پارٹیوں کے لیے بھی مشہور تھے۔مشتبہ قاتل گرفتار کرلئے گئے ہیں اس کے پیچھے لارنس بشنوئ کا ہاتھ بتایا گیا ہے جو سلمان خان کا بانی دشمن ہے اور کہا جاتا ہے کہ بابا کو سلو سے دوستی کی قیمت چکانی پڑی ستمبر سنہ 1958 کو بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں پیدا ہونے والے بابا صدیقی کا پورا نام ضیا الدین صدیقی تھا لیکن وہ فلم نگری ممبئی میں بابا صدیقی کے نام سے مشہور ہوئے۔وہ طالبعلمی کے زمانے میں ہی کانگریس سے منسلک ہوگئے اور باندرہ سے 1980 میں کانگریس کی طلبہ ونگ این ایس یو آئی کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔وہ تین بار باندرہ ویسٹ سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور 2004 سے 2008 کے درمیان فوڈ اینڈ سول سپلائیز اور لیبر اینڈ ایف ڈی کے وزیر رہے۔اس سے قبل سنہ 1992 سے 1997 کے درمیان وہ مسلسل دو بار ممبئی سوک باڈی کے کارپوریٹر منتخب ہوئے۔
سنہ 2017 میں ای ڈی نے منی لانڈرنگ کیس میں باندرہ میں بابا صدیقی سے منسلک مقامات پر چھاپے مارے جس کے بعد وہ سیاسی طور پر زیادہ فعال نہیں رہے جبکہ ان کے بیٹے ذیشان صدیقی کو زیادہ متحرک اور فعال دیکھا جانے لگا۔سنہ 2014 میں بابا صدیقی باندرہ ایسٹ سے انتخابات ہار گئے لیکن سنہ 2019 میں ان کے بیٹے ذیشان صدیقی نے وہاں سے جیت حاصل کی اگرچہ بابا صدیقی کو ریاستی سطح پر ایک سیاست دان اور کانگریس کے سرگرم رکن کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن قومی سطح پر وہ بالی وڈ سے اپنی قربتوں اور اپنی افطار پارٹی کے لیے زیادہ مشہور رہہر سال رمضان کے مہینے میں منعقد ہونے والی ان کی افطار پارٹی سیاسی رہنماؤں اور بالی وڈ سیلبریٹیز کی شرکت کی وجہ سے خبروں کی زینت بنتی تھی۔اداکار شاہ رخ خان اور سلمان خان کے درمیان پانچ سال سے ناچاقی رہی تھی اور دونوں کسی تقریب میں ساتھ بالکل نہیں نظر آتے تھے۔لیکن پھر کہا جاتا ہے کہ بابا صدیقی کی کوششوں سے دونوں نے اپنے اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کو گلے لگایا۔ سنہ 2013 کے دوران ایک افطار پارٹی پر دونوں کے بغلگیر ہونے کا منظر سامنے آيا۔اس کے بعد یہ دونوں اداکار مسلسل ایک ساتھ نظر آتے ہیں اور ایک دوسرے کی تعریف میں کوئی کسر نہیں رکھتے ہیں۔
انسان دوست سیکولر رہنما’
ان کی موت پر بالی وڈ بھی غمزدہ ہے۔ سوشل میڈیا پر انھیں انسان دوست اور سیکولر رہنما کے طور پر یاد کیا جا رہا ہے۔سابق وزیر اعلی کے بیٹے اور اداکار رتیش دیشمکھ نے ایکس پر لکھا: ‘بابا صدیقی جی کی المناک موت کے بارے میں جان کر بے حد غمزدہ ہوں اور صدمہ پہنچا ہے۔
’میرا دل ذیشان اور پورے خاندان کے لیے غمزدہ ہے۔ خدا ان کو اس مشکل وقت میں ہمت اور حوصلہ دے۔ اس بھیانک جرم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔’سیم خان نامی ایک صارف نے لکھا: ‘بابا صدیقی حقیقی معنوں میں سیکولر رہنما تھے۔ وہ کبھی مسلمان لیڈر نہیں تھے۔ شاید انھوں نے مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کے لیے کیا لیکن آج ہر کوئی انھیں مسلم لیڈر کے طور پر یاد کر رہا ہے۔ وہ بالی وڈ کی افطار پارٹیوں کے لیے جانے جاتے تھے لیکن وہ گنیش چترتھی اور دیوالی میں بھی شامل رہتے تھے۔’لوگ ان کی افطار پارٹیز کو بھی لوگ یاد کر رہے ہیں جس میں عامر خان، سلمان خان اور شاہ رخ خان کے علاوہ سنیل دت، سنجے دت، پریا دت وغیرہ بھی شرکت کیا کرتے تھے۔آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے رہنما اور رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے جہاں ان کی موت پر دکھ کا اظہار کیا ہے وہیں انھوں ریاست میں امن و امان کی بگڑتی صورت حال پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ان کی ہی طرح ایک صارف سیف پٹیل نے لکھا: ‘بابا صدیقی کو باندرہ میں قتل کر دیا گیا تھا – ممبئی کے سب سے زیادہ پوش / اشرافیہ علاقوں میں سے ایک میں۔ ان کے پاس ‘وائی’ کیٹيگری کی سیکورٹی کوور تھی۔
’کیا اس سے امن و امان کی مکمل تباہی اور مہاراشٹر میں صدر راج کے نفاذ کی فوری ضرورت کی نشاندہی نہیں ہوتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوگا
انسان دوست سیکولر رہنما’
ان کی موت پر بالی وڈ بھی غمزدہ ہے۔ سوشل میڈیا پر انھیں انسان دوست اور سیکولر رہنما کے طور پر یاد کیا جا رہا ہے۔سابق وزیر اعلی کے بیٹے اور اداکار رتیش دیشمکھ نے ایکس پر لکھا: ‘بابا صدیقی جی کی المناک موت کے بارے میں جان کر بے حد غمزدہ ہوں اور صدمہ پہنچا ہے۔
’میرا دل ذیشان اور پورے خاندان کے لیے غمزدہ ہے۔ خدا ان کو اس مشکل وقت میں ہمت اور حوصلہ دے۔ اس بھیانک جرم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔’سیم خان نامی ایک صارف نے لکھا: ‘بابا صدیقی حقیقی معنوں میں سیکولر رہنما تھے۔ وہ کبھی مسلمان لیڈر نہیں تھے۔ شاید انھوں نے مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کے لیے کیا لیکن آج ہر کوئی انھیں مسلم لیڈر کے طور پر یاد کر رہا ہے۔ وہ بالی وڈ کی افطار پارٹیوں کے لیے جانے جاتے تھے لیکن وہ گنیش چترتھی اور دیوالی میں بھی شامل رہتے تھے۔’