نئی دہلی :(ایجنسی)
’’جو بھی ہندو اسلام کے جہاد سےلڑنے کی سوچے گا یا اس کے بارے میں بات کرے گا ، اس کا انجام جتیندر نارائن سنگھ تیاگی جی جیسا ہی کردیا جائے گا ۔یہ طے ہے۔ کیوں؟ کیونکہ ہندوؤں نے دکھایا ہے کہ ہندو کتوں سے بھی بدتر ہیں، ہندو کوؤں سے بھی برے ہیں، ہندو بندروں سے بھی بدتر ہیں۔‘‘
للن ٹاپ سےسوربھی گپتا کی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر یہ بیان یتی نرسنگھا نند کا بتایا جا رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یتی نرسنگھانند نے یہ اشتعال انگیز تقریر ہماچل پردیش کے اؤنا میں’ اکھل بھارتیہ سنت پریشد‘ کی جانب سے 17 اپریل سے شروع ہوئے تین روزہ دھرم سنسد پروگرام میں کی ہے ۔ واضح رہے کہ یتی نرسنگھا نند ڈاسنا دیوی مندر کے مہنت ہیں، انہیں گزشتہ دسمبر 2021 میں ہری دوار میں نفرت انگیز تقریر کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور اب وہ ضمانت پر باہر ہیں۔
اؤنا دھرم سنسد میں کئی لوگوں پر قابل اعتراض تقریر کرنے کا الزام
اؤنا میں منعقدہ دھرم سنسد کے اس پروگرام میں کئی دوسرے مقررین نے بھی ایک خاص مذہب کے خلاف قابل اعتراض باتیں کہیں۔ ایک اور ویڈیو کلپ جو اؤنا دھرم سنسد کا بتایا جا رہا ہے، ایک خاتون کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے:
’مجھے بہت فخر محسوس ہوتا ہے جب لوگ مجھے لیڈی گوڈسے بولتے ہیں… آپ نے جو عزت دی ہے، جو پیار دیا ہے۔ میں ہماچل کی ہر بیٹی کے لیے کھڑی ہوں، میرے لائق کچھ بھی ہو ،آپ تمام کو میںیہ عہد لے کر جاتی ہے ہوں ، مجھے بتادینا ،جہاں گولی مارنے کی ضرورت ہو، وہاں مار بھی دیں گے ، فکر مت کرنا ‘
دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ 17 اپریل کا یہ بیان پوجا شکن پانڈے کا ہے۔ وہی پوجا شکن پانڈے جس پر ہری دوار دھرم سنسد کے دوران نفرت انگیز تقریر کرنے کا الزام ہے۔
’آج تک‘ کی رپورٹ کے مطابق، اکھل بھارتیہ سنت پریشد کے ہماچل پردیش انچارج یتی ستیہ دیوانند سرسوتی نے بھی اس دھرم سنسد کے پہلے دن یعنی 17 اپریل کو ایک قابل اعتراض تقریر کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان کو اسلامی ملک بننے سے بچانے کے لیے ہندوؤں کو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے چاہئیں۔ رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ: ’’ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، یہاں ہندو اکثریت میں ہیں۔ لیکن ایک کمیونٹی کے لوگ منصوبہ بندی کے تحت کئی بچوں کو جنم دے کر اپنی آبادی بڑھا رہے ہیں۔‘‘
پولیس نے منتظمین کو نوٹس جاری کر دیا تھا
اس دھرم سنسد سے پہلے ہی ہماچل پردیش پولیس کی جانب سے منتظمین کو نوٹس بھیجا گیا تھا، جس میں لکھا گیا تھا کہ اگر اس دھرم سنسد میں کسی بھی برادری اور ذات کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی گئیں تو قانونی کارروائی کی جائے گی۔
گزشتہ 18 اپریل کو اؤنا کے ایس پی اریجیت سین نے نیوز ایجنسی اے این آئی کو بتایا،’اؤنا کے مبارک پور علاقے میں ایک ’دھرم سنسد‘ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ ہم نے منتظمین کو نوٹس جاری کیے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہاں کوئی اشتعال انگیز تقاریر یا تبصرے نہ کیے جائیں۔ ہمیں کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ احتیاط کے طور پر، ہم نے وہاں فورس تعینات کر دی ہے۔‘
اب جبکہ اس پروگرام میں نفرت انگیز تقاریر کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ پولیس مزید کیا کارروائی یا تفتیش کرتی ہے۔