کانگریس لیڈر راہل گاندھی اپنے دورہ امریکہ کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔ کبھی ان کی طرف سے لوک سبھا انتخابات کے نتائج کا تذکرہ کیا جا رہا ہے اور کبھی وہ عوام کے اس خوف پر طنز کر رہے ہیں جو ختم ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں ورجینیا کے ہرنڈن میں انڈین اوورسیز کانگریس سے وابستہ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس لیڈر نے کئی مسائل پر تفصیل سے بات کی۔
٭یہ کنٹرولڈ الیکشن تھے
ملک کے قائد حزب اختلاف نےایک اور سیاسی بم پھوڑتے ہوئے کہا کہ اس بار ہونے والے انتخابات مکمل طور پر آزاد نہیں تھے بلکہ کنٹرولڈ تھے۔ اس بارے میں طلباء سے بات کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ ملک کے غریبوں کو سمجھ میں آ گیا ہے کہ اگر آئین کو ختم کر دیا گیا تو سارا کھیل ختم ہو جائے گا۔ غریب نے یہ بھی سمجھا کہ اصل لڑائی آئین کو بچانے والوں اور آئین کو تباہ کرنے والوں کے درمیان ہے۔ اس کے علاوہ ذات پات کی مردم شماری کا مسئلہ بھی بڑا مسئلہ بن گیا تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ اگر منصفانہ انتخابات ہوتے تو بی جے پی 246 سیٹیں بھی حاصل کر پاتی۔ اس جماعت کو بہت زیادہ مالی فوائد حاصل ہوئے، یہاں تک کہ ہمارے بینک اکاؤنٹس بھی سیل کر دیے گئے۔
*راہل الیکشن کمیشن کیا بولے
اس کے بعد راہل گاندھی نے الیکشن کمیشن کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن صرف اتنا ہی کر رہا ہے جتنا بی جے پی چاہتی ہے، پوری مہم اس طرح سے تیار کی گئی تھی کہ پی ایم مودی اپنا کام آرام سے کر سکیں۔ میں اس الیکشن کو آزاد الیکشن کے طور پر نہیں دیکھتا بلکہ میں اسے کنٹرولڈ الیکشن سمجھتا ہوں۔ اب راہل گاندھی کا یہ بیان ملک میں ایک نئے سیاسی زلزلے کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ درحقیقت راہل کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں انتخابات منصفانہ نہیں تھے، جمہوریت کے سب سے بڑے تہوار میں انتخابات صحیح طریقے سےنہیں ہوئے تھے
٭کامن سول کوڈ پر کیا کہا
یکساں سول کوڈ کے بارے میں راہل نے کہا کہ وہ اس پر تبصرے کریں گے جب وہ جانیں گے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی تجویز کیا ہے۔ انہوں نے کہا، بی جے پی یونیفارم سول کوڈ کی تجویز کر رہی ہے۔ ہم نے اسے نہیں دیکھا۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ کس کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ ہمارے لیے اس پر تبصرہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جب وہ اسے لائیں گے تو ہم اسے دیکھیں گے اور اس پر تبصرہ کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انڈیا اتحاد کے ارکان کے درمیان کئی امور پر اختلافات ہیں تاہم وہ کئی چیزوں پر متفق بھی ہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے۔