تحریر:قبول احمد
بی جے پی نے پیر کو راجیہ سبھا انتخابات کے لیے اپنے امیدواروں کی دوسری فہرست بھی جاری کردی۔ بی جے پی نے اپنے کسی مسلم لیڈر کو راجیہ سبھا کے لیے نامزد نہیں کیا ہے، جب کہ مرکزی وزیر مختار عباس نقوی، ایم جے اکبر اور سید ظفر اسلام کی میعاد ختم ہو رہی ہے۔ ایسے میں مختار عباس نقوی کی ساکھ داؤ پر لگ گئی ہے، کیونکہ اگر وہ دوبارہ پارلیمنٹ میں نہیں پہنچے تو انہیں چھ ماہ کے اندر وزارتی عہدہ چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔ ایسے میں کیا مختار عباس نقوی رام پور لوک سبھا سیٹ سے ضمنی انتخاب میں قسمت آزمائیں گے؟
بی جے پی نے راجیہ سبھا کی کل 22 سیٹوں کے لیے اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے، جس میں مرکزی وزیر مختار عباس نقوی سمیت کسی بھی مسلم لیڈر کا نام شامل نہیں ہے۔ ایسے میں اب نقوی کے رام پور سے لوک سبھا ضمنی انتخاب لڑنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ 1998 میں پہلی بار اسی رام پور سے جیت کر نقوی ممبر پارلیمنٹ اور اٹل سرکار میں وزیر برائے اطلاعات ونشریات بنےتھے ۔
بی جے پی کی سیاست میں مختار عباس نقوی نے اپنی سیاسی اہمیت بنائی اور اب جب بی جے پی نے انہیں راجیہ سبھا کا ٹکٹ نہیں دیا تو ان کے سیاسی مستقبل کو لے کر طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی رام پور لوک سبھا سیٹ سے اعظم خاں کے استعفیٰ کے بعد ضمنی انتخاب کا اعلان کیا گیا ہے، جہاں بی جے پی ہر حال میں جیتنے کی کوشش کر رہی ہے۔
1998 کے بعد لوک سبھا انتخابات نہیں جیتے
راجیہ سبھا کا ٹکٹ کٹنے کے بعد مختار عباس نقوی کے لوک سبھا ضمنی انتخاب لڑنے کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ نقوی کا رام پور سیٹ سے انتخاب لڑنا ہے۔ نقوی نے رام پور سیٹ سے تین بار قسمت آزمائی اور 1998 میں ایم پی بنے، لیکن 1999 اور 2009 میں الیکشن لڑے لیکن جیت نہ سکے۔ اس طرح نقوی 1998 کے بعد کوئی لوک سبھا الیکشن نہیں جیت سکے اور 2016 سے انہیں پارٹی نے جھارکھنڈ سے راجیہ سبھا میںبھیجا۔
مختار عباس نقوی کی راجیہ سبھا میں موجودہ میعاد 29 جون کو ختم ہو رہی ہے اور بی جے پی نے انہیں کسی بھی ریاست سے امیدوار نہیں بنایا ہے۔ ایسے میں رام پور لوک سبھا سیٹ پر ضمنی انتخاب کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایسے میں رام پور لوک سبھا سیٹ کے سیاسی مساوات کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نقوی کو امیدوار بنانے کا داؤچل سکتی ہے۔ نقوی نے 1998 میں رام پور سیٹ پر جیت کا جھنڈا لہرایا تھا اور پھر سے بی جے پی ان پر دائو کھیل سکتی ہے۔
وقتاً فوقتاً بی جے پی مسلم ووٹ کے جھکاؤ کو جانچنے کے لیے سیاسی تجربات کرتی رہتی ہے۔ اعظم خاں نے خود رام پور لوک سبھا سیٹ سے ضمنی انتخاب لڑنے سے انکار کر دیا ہے، لیکن کوئی ان کے پریوار سے لڑےگا یا نہیں یہ تصویر صاف نہیں ہے۔ جیل سے باہر آنے کے بعد سے اعظم خاں نے بھلے ہی کھلے طور پر ایس پی سربراہ اکھلیش یادو کو لے کر کوئی بیان نہیں دیا ہو، لیکن ناراضگی صاف نظر آرہی ہے ۔ جیل سے باہر آئے دس دن ہو رہے ہیں ، لیکن ابھی تک اعظم خاں اور اکھلیش کے درمیان ملاقات نہیںہوئی ہے ۔
وہیں، ایس پی کی ناراضگی کے سوال پر اعظم خاں نے کہا تھا، ‘میں نے کبھی کسی دوسری کشتی کی طرف دیکھا تک نہیںہے، سوار ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ ابھی تک اپنی زندگی میں لائن لکیر کھینچ رکھی تھی ،لیکن اندازہ ہو ا کہ دعا سلام سبھی سے رکھنی چاہئے ۔ دعا سلام کے علاوہ اگر چائے ناشتہ بھی ہو تو اس میں اعتراض نہیں ہونا چاہئے، جب سب چائے ناشتہ کرتے ہیں تو میںنہیں کر سکتا۔ جب یہ اختیار سبھی سیاسی دپارٹیوں کے لیڈروں کو حاصل ہے تو میں بھی انہیں جیسا انسان ہوں۔
اس طرح اعظم خاں نے دیگر پارٹیوں کے لیڈروں کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ مانا جا رہا ہے کہ اعظم خاں کی ناراضگی دور کرنے کے لیے اکھلیش یادو نے کپل سبل کو آزاد حیثیت سے راجیہ سبھا بھیجنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ سبل نے ہی سپریم کورٹ سے اعظم خاں کی ضمانت کرائی ہے ۔ اس بات کو اعظم خاں نے کھلے طور پر کپل سبل کا شکریہ ادا کیا تھا ۔
ساتھ ہی اب سب کی نظریں رام پور سیٹ پر جمی ہوئی ہیں کہ ایس پی اور بی جے پی سے کون انتخابی میدان میں اترے گا۔ ایس پی اور بی جے پی نے ابھی تک اپنے کارڈ نہیں کھولے ہیں جبکہ بی ایس پی نے واضح کر دیا ہے کہ وہ رام پور سیٹ پر اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرے گی۔ ایسے میں مسلم اکثریتی رام پور سیٹ پر بی جے پی مختار عباس نقوی کو میدان میں اتار کر سال 1998 جیسے نتائج کو دہرانے کے لیے سیاسی دائو کھیل سکتی ہے۔
نقوی نے بھلے ہی 13 سال سے رام پور لوک سبھا سیٹ سے انتخاب نہیں لڑا ہو، لیکن انہوں نے اپنی سرگرمی برقرار رکھی ہے۔ اقلیتی وزیر کے طور پر مختار عباس نقوی نے رام پور میں ہنت ہاٹ کا بھی اہتمام کیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ ہر دو ماہ میں رام پور آتے رہتے ہیں۔ رام پور سیٹ پر 50 فیصد سے زیادہ مسلم ووٹر ہیں اور بی جے پی نقوی کے ذریعے مسلم اور ہندو ووٹوں کے امتزاج سے جیت کا جھنڈا لہرانے کا داؤ چل سکتی ہے۔ مختار عباس نقوی کو بھی اپنا وزارتی عہدہ برقرار رکھنے کے لیے چھ ماہ میں پارلیمنٹ پہنچنا ہو گا۔ ایسے میں راجیہ سبھا سے خالی ہاتھ آنے کے بعد فی الحال ان کے پاس رام پور سیٹ سے الیکشن لڑنے کا آپشن بچا ہے۔
(بشکریہ: آج تک )