تحریر: قاضی محمدفیاض عالم قاسمی
رمضان المبارک کامہینہ ایک عظیم الشان اورمقدس مہینہ ہے، برکتوں اوررحمتوں والا مہینہ ہے، اس میں اللہ رب العزت کی طرف سے اس کے بندوں پر خاص رحمتیں نازل ہوتی ہیں، ان کے گناہوں کو معاف کردیاجاتاہے، جہنم سے نجات کاپروانہ دیا جاتا ہے، اسی پربس نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوجاتاہے اوران کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔ مگر اس کے لئے شرط ہے کہ رمضان کا مہینہ سنت نبوی ﷺ کے مطابق گزارا جائے، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے طریقہ کو امت کے آئڈیل اورنمونہ بنایاہے۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَة(سورۃ الاحزاب:21)اس لیے آئیے دیکھتے ہیں کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں آپ ﷺ کے معمولات کیاتھے؟
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ جب ماہ رمضان شروع ہوتا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک بدل جاتاتھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمازوں میں اضافہ ہوجاتا، اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتے اور آپ پر خوف طاری رہتاتھا۔(شعب الایمان للبیہقی:3625)
پہلاکام:روزہ رکھنا
یوں تو آپ ﷺ کثرت سے نفل روزہ رکھاکرتے تھے،مگر رمضان کے علاوہ کسی بھی پورے مہینہ میں روزے نہیں رکھے ہیں؛چوں کہ رمضان المبارک کاروزہ فرض ہے ،اس لئے پورے مہینہ میں روزہ رکھتے تھے۔ اورلوگوں کو روزہ رکھنے کاحکم دیتے تھےکہ جس نے رمضان کے روزے ایمان واحتساب کے ساتھ رکھے یعنی اسے روزے فرضیت پر یقین ہواوراللہ تعالیٰ سے ثواب امید بھی ہوتو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرمادیں گے۔(صحیح بخاری:38)
دوسراکام: قیام اللیل
رمضان المبارک کی راتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثرت سے نماز پڑھتے تھے۔اوردوسرے لوگوں کو بھی ترغیب دیتے تھے،آپ نے فرمایا کہ جس نے ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان میں قیام اللیل کیایعنی راتوں میں نمازوں کااہتمام کیا تواللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرمادیں گے۔(مسند ابوداؤدطیالسی:٢٤۸١)
قیام اللیل کی دو صورتیں ہیں، ایک تراویح جس کی بیس رکعتیں ہیں، اوردوسری تہجد جس کی کم سے کم دورکعت اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتیں ہیں۔ان کے علاوہ بھی کثرت سے نوافل پڑھناآپ علیہ السلام سے منقول ہے۔اس لئے ان نمازوں کے ساتھ ساتھ اشراق،چاشت، اوابین وغیرہ کابھی اہتمام کرناچاہئے۔
تیسراکام:قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت
رمضان المبارک کے مہینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اہم معمول قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرنابھی تھا، رمضان المبارک کو قرآن کریم سے خصوصی نسبت حاصل ہے کیوں کہ اسی مہینہ میں قرآن کریم نازل ہواہے۔ جس طرح دوسری نیکیوں کا اجر اس ماہ میں بڑھ جاتا ہے ، اسی طرح قرآن کریم کی تلاوت کا بھی اجر بڑھ جاتا ہے ۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جبرئیل علیہ السلام کی آمد زیادہ ہوجایاکرتی تھی اور جب جبرئیل علیہ السلام آتے تو قرآن کریم کی تلاوت کرتے اورآپ ﷺ بھی ان کو قرآن کریم سنایاکرتےتھے، اس طرح دونوں ایک دوسرے کو سنایاکرتے تھے۔ایک روایت میں ہے کہ ایک ختم سنانے کا معمول برابر رہا ، اور جس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس سال دو مرتبہ پورا قرآن سنایا۔(صحیح بخاری:٤۹۹۸)
چوتھا کام: کثرت ذکر اورکثرت دعاء:
یوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ذکر الٰہی میں مشغول رہتے تھے، لیکن جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو ذکر واذکارتسبیحات واوراد میں بہت اضافہ ہوجاتا تھا، کثرت ذکر کے ساتھ اس ماہ میں دعائیں بھی خوب کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں کو اس ماہ میں کثرت سے ذکر اور دعا کرنے کا حکم دیا کہ اس ماہ میں دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں ۔آپ ﷺ نے چار چیزوں کو کثرت سے کرنے کی امت کو حکم دیا۔ ان میں سےدوخصلتیں ایسی ہیں جن سے اللہ راضی ہوتاہے اوروہ کلمہ شہادت کی کثرت اور اوراستغفار کرناہے، اوردوخصلتیں ایسی ہیں جن سے کوئی چارہ کارنہیں، اوروہ جنت کا سوال کرنا اورجہنم سے پناہ مانگناہے۔ان کے علاوہ سبحان اللہ ، الحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ، اور درود شریف کے ساتھ استغفار وغیرہ کی کثرت کرنی چاہئے۔
اسی طرح جن اعمال کے وقت جو دعا منقول ہے ان کا اس ماہ میں خصوصیت سے اہتمام کرناچاہئے ۔مثلاافطار کے وقت دعاء قبول ہوتی ہے۔رسول پاک کا ارشاد ہے کہ تین آدمی کی دعاء ردنہیں ہوتی، ان میں سے ایک روزہ دارہے ، افطار کے وقت اس کی دعاء قبول جاتی ہے۔اسی طرح سحری کے وقت بھی دعاء قبول ہوتی ہے۔اس لئے چھوٹی بڑی منقول دعاؤں کا اہتمام کرناچاہئے نیز اپنے جائزمقاصد کے لئےبھی دعائیں مانگتے رہناچاہئے ۔
پانچواں کام: صدقات وخیرات کی کثرت:
ماہ رمضان المبارک میں غریب ومسکین لوگوں کا خاص خیال رکھنا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت رہی ہے ، آدمی جب دن بھر بھوکا پیاسا رہتا ہے تو اسے احساس ہوتاہے کہ وہ لوگ کیسے زندگی گذارتے ہوں گے جن کے یہاں اکثر فاقہ ہی رہتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صدقات و خیرات کثرت کے ساتھ کیا کرتے اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ کبھی کوئی سوالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے خالی واپس نہ جاتا تھا،رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سخاوت اور صدقات و خیرات میں کثرت سال کے باقی گیارہ مہینوں کی نسبت اور زیادہ بڑھ جاتی۔ اس ماہ صدقہ و خیرات میں اتنی کثرت ہو جاتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکتے۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھلائی کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔(صحیح بخاری:١۸۰٣)
اگر ہم بھی آپ ﷺ کے نقش قدم پر چل کرآپ کے معمولات کو اپنے معمولات بنالیں تو ان شاء اللہ روزے کے سارے فوائدحاصل کرسکیں گے اوردنیاوآخرت میں کامیاب وکامران ہوں گے۔فقط
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)