تحریر: تیجس ہرد
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے 12 مارچ کو اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی، جس میں اس نے تشویش کا اظہار کیا کہ ’جیسے جیسے مردم شماری کا سال قریب آرہا ہے، ایک کمیونٹی کے درمیان بھڑکانے اور ان میں یہ بات پھیلانے کے واقعات سامنے آرہے ہیں کہ ’ وہندو نہیں ہیں ۔‘
2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں ہندوؤں کی آبادی تقریباً ایک ارب ہے۔ اس طرح آبادی کے حساب سے عیسائی اور اسلام کے بعد ہندو دھرم دنیا کا تیسرا سب سے بڑا مذہب بن جاتا ہے،حالانکہ اس تعداد پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ جولائی 2021 میں، ایک صحافی دلیپ منڈل، جن کو سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ فالو کرتے ہیں، نے ہندی میں ٹویٹ کیا۔
’’اگر آدیواسی ہندو تھے تو پچھلے ہزاروں سالوں میں جتنے بھی شنکراچاریہ تھے ان میں سے کم از کم ایک شنکراچاریہ آدیواسی ہوتا۔ کم از کم ایک مندر میں قبائلی پجاری ہوتے۔ مذہبی مقامات پر قبائلی کہاں ہیں؟ رام مندر ٹرسٹ میں قبائلی کہاں ہیں؟‘‘: صحافی دلیپ منڈل
‘
’ہندو شناخت‘ کا چیلنج
’ہندو کون ہے‘ کے سوال کا جواب تلاش کرنا آسان نہیں ہے۔ جب کہ میڈیا اور سیاست دان اس اصطلاح کو بغیر کسی سوال کے کھلے عام استعمال کرتے ہیں، لیکن ہندوستانی تاریخ کے جانکار، ماہرین سماجیات اور ماہر بشریات پچھلی دو صدی سے مسلسل ہندو لفظ کی ایک متفق تعارف دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی۔
کچھ برادری ، جنہیں مردم شماری میں ہندو قرار دیا گیا ہے، انہیں بھی اس نام کو چیلنج کیا ہے۔ اور اپنے لیے الگ حیثیت کا مطالبہ کر رہا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں قبائلی ہیں۔
بہار کے ایک قبائلی کارکن مہندر دھروا نے ’دی وائر‘ کو بتایا کہ مردم شماری کے فارم میں مذہب کے کالم میں صرف 6 آپشنز دیے گئے ہیں:- ہندو، مسلم، عیسائی، بدھ، جین اور سکھ۔ ’اگر ہم فرض کر لیں کہ ہمارا ان میں سے کسی بھی مذہب سے تعلق نہیں ہے، تو سوال یہ ہے کہ ہمیں کس کا انتخاب کرنا چاہیے؟ سال 2011 سے پہلے ’دیگر‘ کا ایک آپشن تھا جسے ہم منتخب کرتے تھے لیکن اب اسے ہٹا دیا گیا ہے۔
کرناٹک کے لنگایت بھی طویل عرصے سے اپنے عقائد اور طریقوں کے لیے الگ مذہبی شناخت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جہاں کرناٹک حکومت نے سال 2018 میں اس درخواست کو قبول کر لیا تھا۔ لیکن حتمی فیصلہ مرکزی حکومت کو کرنا ہے کیونکہ مردم شماری کی پوری ذمہ داری مرکز پر ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور چیلنج امبیڈکروادی تحریک سے آتا ہے، خاص طور پر ہندو شناخت کے خلاف خود امبیڈکر نے بھی بہت کچھ لکھا تھا۔ امبیڈکر لکھتے ہیں۔
ہندو خود ایک غیر ملکی نام ہے
’ہندو سماج‘ کی بات ایک جھوٹ ہے اورسب سے پہلے اس بات کو منظور کیا جانا چاہئے ۔ ہندو نام ہی خودمیں ایک غیر ملکی نام ہے۔ یہ مسلمانوں نے اس لیے دیا تھا تاکہ وہ اپنے آپ کو مقامی لوگوں سے الگ کر سکیں۔ مسلمانوں کے حملے سے پہلے سنسکرت میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ ان کو عام نام کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی۔ کیونکہ ان کو ایک کمیونٹی کے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ حقیقت میں ہندو سماج نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ یہ صرف ذاتوں کا ایک گروہ ہے۔‘
امبیڈکر کی روایت کی تحریروں کی دو اور حالیہ مثالیں ہیں کانچا الیہ شیفرڈ کی کتاب – ’’میں ہندو کیوں نہیں ہوں – ہندوتوادرشن، سنسکرت اور سیاسی معاشیات پر ایک شودر تنقید، اور وندنا سونالکر کی کتاب ’میں کیوہندو عورت نہیں ہوں‘ اور ساتھ ہی بھنور میگھونشی کی کتاب ’’میں ہندو کیوں نہیں ہو سکتا – آر ایس ایس میں دلتوں کی کہانی‘ جیسی کتابیں ہیں۔
آر ایس ایس اس طرح سے ہندوازم اور ہندو دھرم پر تنقید سے خوش نہیں ہے۔ آر ایس ایس، جو ہندو راشٹرا کے لیے کام کر رہی ہے، نے گزشتہ ہفتے جاری کردہ اپنی سالانہ رپورٹ میں لکھا۔
’’آج بھارت میں جہاں ایک طرف صدیوں پرانی ثقافتی اقدار، روایات اور شناخت، اتحاد اور سالمیت بیدار ہو رہی ہے، وہیں ہندو طاقت پوری عزت نفس کے ساتھ کھڑی ہے، وہیں دوسری طرف کچھ طاقتیں جو یہ سب ہضم نہیں کر سکتیں۔ معاشرہ تفریق اور تقسیم کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ملک میں تفرقہ انگیز عناصر کا چیلنج بھی خطرہ ہے۔ ہندو سماج کو کمزور کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہندو سماج میں موجود مختلف اکائیوں کو الگ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ جیسے جیسے مردم شماری قریب آرہی ہے، ایک گروپ کو ’وہ ہندو نہیں‘ کہنے پر اکسانے کے واقعات منظر عام پر آ رہے ہیں۔‘‘
اس رپورٹ میں کسی ایسے گروپ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جو خود کو ہندو سماج سے الگ سمجھتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ نہیں بتایا گیا کہ کس گروہ کو اکسایا جا رہا ہے، لیکن اب تک قارئین کے ذہنوں میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ آخر وہ کون سے لوگ اور رجحانات ہیں جن کو لے کر آر ایس ایس فکر مند ہیں ۔
ہندو ارو ہندو دھرم کی ابتدا
جبکہ لفظ ہندو کافی قدیم ہے، ہندو دھرم ویسانہیں ہے۔ یہ بات قدرے پریشان کن لگ سکتی ہے لیکن اس کے لیے ہمیں اس لفظ کی تاریخ اور ماخذ میں تھوڑا گہرائی سے دیکھنا ہوگا۔
’’ہندو لفظ کا سنسکرت کے لفظ سندھو کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ دریائے سندھ اور اس کے آس پاس رہنے والے لوگوں کے بارے میں اوستا صحیفے میں بھی لفظ سندھو کا ذکر ہے۔ اوستا میں اس علاقے اور اس علاقے میں رہنے والوں کے لیے سندھو کا لفظ بھی سندھو کہا گیا ہے۔ اس اصطلاح کے درست استعمال کے بارے میںاپنے مضمون ’ ہندوازم میں ‘ ہنریکا رہنے والی آبادی ، انڈوس جنتا، انڈین لوگوں کے لئے سندھو لفظ کا ذکر ہوا ہے ۔
(بشکریہ: دی کوئنٹ )