نئی دہلی 2 جون ،(آر کے بیورو )
سنبھل ان دنوں سرخیوں میں ہے۔ وجہ وہ ہنگامہ ہے جو وہاں کی قدیم شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران ہوا اور پھر کئی پرانے ہندو مندر سامنے آئے۔گرچہ سپریم کورٹ کے حکم پر فی الحال سروے وغیرہ پر روک لگ گئی ہے لیکن ماحول لگاتار گرم رکھا جارہا ہے آئے دن کوئی پراچین مندر یا کنواں نکل رہا ہے ـ سنبھل اس لیے بھی سرخیوں میں ہے کیونکہ وہاں کے موجودہ ایم پی ضیاء الرحمان برق پر کئی مقدمات لگائے گئے ہیں جن میں پر بجلی چوری جیسا الزام بھی ہے محکمہ بجلی نے بھاری جرمانہ عائد کیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ سوچیں سمجھیں حکمت عملی کے تحت بی جے پی نے تمام تر توجہ سنبھل پر کر رکھی ہے۔ اس کے سیاسی معانی کھلے راز کی طرح ہے ـ سنبھل بی جے پی کے لیے بہت خاص بن جاتا ہے کیونکہ ہندو عقائد کے مطابق یہ وہ جگہ ہے جہاں بھگوان وشنو کے 10ویں اور آخری اوتار کالکی اترنے والے ہیں۔
مغربی اتر پردیش کو ایک زمانہ میں بی جے پی کی پہنچ سے باہر سمجھا جاتا رہا ہے اور بھگوا پارٹی کسی بھی قیمت پر اس تاثر کو بدلنا چاہتی ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے لیے آر ایل ڈی کے ساتھ اتحاد بھی یہی ظاہر کرتا ہے۔ حالیہ اسمبلی ضمنی انتخابات میں بی جے پی نے ایس پی کے گڑھ اور مسلم اکثریتی سیٹ کندرکی جیت لی ہے۔ یہ سیٹ سنبھل سے بالکل متصل ہے۔ دی انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے، بی جے پی کے قریبی ذرائع نے کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ پارٹی کے لیے ایودھیا، متھرا اور کاشی (وارنسی) کے ساتھ ساتھ سنبھل کو اتر پردیش کے بڑے مذہبی مقامات میں شامل کیا جائے۔ اس سال 19 فروری کو وزیر اعظم نریندر مودی نے سنبھل میں کالکی کے بڑے مندر کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ یہ پروگرام ایودھیا میں رام مندرپرتشٹھان کے چند دن بعد ہوا تھا۔اتر پردیش اسمبلی کے حال ہی میں ختم ہوئے سرمائی اجلاس میں سی ایم یوگی نے سنبھل مسجد کے سروے کا دفاع کیا اور کہا کہ بابرنامہ میں اس جگہ پر ایک مندر کا ذکر کیا گیا ہے۔ انہوں نے شہر کے کالکی ‘سمبدھ’ کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ پرانوں کے مطابق بھگوان وشنو کے 10ویں اوتار سنبھل میں پیدا ہوں گے۔
شری کالکی دھام تعمیر ٹرسٹ کے چیئرمین آچاریہ پرمود کرشنم نے انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیاکہ جب سے پی ایم مودی کالکی دھام آئے ہیں، سنبھل میں چمتکار کے بعد چمتکار ہو رہے ہیں۔
مذہبی اہمیت کے علاوہ سنبھل اور اس کے آس پاس کے علاقے بی جے پی کے لیے سیاسی طور پر بھی اہم ہیں۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات کو چھوڑ کر بی جے پی کو یہاں زیادہ کامیابی نہیں ملی ہے۔ یہاں سے ایس پی اور بی ایس پی کو کامیابی ملی ہے۔ سال 1998 اور 1999 میں ایس پی کے بانی ملائم سنگھ یادو خود یہاں سے جیتے تھے اور سال 2004 میں رام گوپال یادو یہاں سے پارلیمنٹ پہنچے تھے۔ ایس پی کے سینئر لیڈر شفیق الرحمان برق نے 2019 میں اس سیٹ پر کامیابی حاصل کی تھی، ان کے پوتے ضیاء الرحمان برق اس سال ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں یہاں سے ایم پی بنے تھے۔ سنبھل مسجد سروے کے دوران ہوئے تشدد کے سلسلے میں بھی برق کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
اگر اسمبلی سطح پر بھی کیا جائے تو سنبھل میں بی جے پی کوئی خاص اثر نہیں دکھا پائی ہے۔ سال 2022 میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں ایس پی نے سنبھل لوک سبھا میں پڑنے والے پانچ اسمبلی حلقوں میں سے چار پر قبضہ کر لیا تھا۔ صرف ایک ایس سی ریزرو سیٹ، چندوسی، بی جے پی کی گلاب دیوی نے جیتی۔ یوگی نے اپنی کابینہ میں گلاب دیوی کو جگہ دی ہے، جس سے ان کی جیت کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ کندرکی میں حالیہ ضمنی انتخاب میں جیت نے بی جے پی کو نئی رفتار دی ہے۔ کندرکی ایک مسلم اکثریتی اسمبلی ہے، یہ سنبھل کے قریب ہے۔
کیا سنبھل کا اثر 2027 میں نظر آئے گا؟
بی جے پی کے ایک لیڈر کا کہنا ہے کہ اگر ان کی مہم کام کرتی ہے تو پارٹی کو فائدہ صرف سنبھل تک محدود نہیں رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ سنبھل کو بھگوان وشنو کے 10ویں اور آخری اوتار کی جائے پیدائش مانے جانے والے ایک اہم مذہبی مقام سے جوڑنے سے 2027 کے اسمبلی انتخابات میں آس پاس کے علاقوں پر بھی اثر پڑے گا۔