سنبھل میں تشدد کو لے کر سیاست جاری ہے، الزامات اور جوابی الزامات کا دور چل رہا ہے اور سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو کٹہرے میں کھڑا کر رہی ہیں۔ واقعہ کے دو دن بعد بھی سیاست نہیں رک رہی ہے۔ جہاں بی جے پی اس واقعے کے لیے سماج وادی پارٹی اور اس سے وابستہ رہنماؤں کو کٹہرے میں کھڑا کر رہی ہے، وہیں سماج وادی پارٹی اسے انتظامیہ اور حکومت کی سازش قرار دے رہی ہے۔سماج وادی پارٹی کی رکن پارلیمنٹ اقرا حسن نے سنبھل میں پولیس کی کارروائی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پولس جن لوگوں کو سروے کے لیے اپنے ساتھ لے گئی تھی ان میں بہت سے سماج دشمن عناصر اور غنڈے شامل تھے جو مذہبی نعرے لگا کر ماحول خراب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کرنے کی کوشش کی۔ اقرا حسن نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر وہاں پولیس موجود تھی تو لوگوں کے ہاتھ میں غیر قانونی اسلحہ کہاں سے آیا اور اگر وہاں حالات قابو سے باہر ہو رہے تھے تو پولیس نے گولیوں کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ کیوں نہیں اپنایا؟
وہیں اقرا حسن نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ ریاست کا امن و امان بی جے پی کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے بہرائچ اور سنبھل دونوں واقعات کو لے کر بی جے پی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا.ایم پی اقرا حسن نے کہا کہ پہلے واقعہ بہرائچ میں ہوا اور اب سنبھل واقعہ میں انتظامیہ براہ راست ملوث ہے۔ ایس پی ایم پی سنبھل تشدد میں انتظامیہ کے ملوث ہونے کا الزام لگا رہے ہیں، جیسا کہ سنبھل ایم پی برق نے کل کہاتھا۔سماج وادی پارٹی کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کا جواب دینے کے لیے بی جے پی حکومت کے کئی ممبران پارلیمنٹ اور وزیر سامنے آئے۔ سماج وادی پارٹی کے سنبھل کے ایم پی ضیاء الرحمن برق کے نام کا ایف آئی آر میں ملزم کے طور پر ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پولس کی تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھا۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سنبھل کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس وقت دونوں طرف سے الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سب کے درمیان اب اپوزیشن لیڈروں نے محتاط رہنے کی بات شروع کر دی ہے۔ انتظامیہ کوشش کر رہی ہے کہ لیڈروں کو فی الحال سنبھل آنے سے روکا جائے اور حالات کو قابو میں رکھا جائے۔