نئی دہلی:(ایجنسی)
کیرل کے صحافی صدیق کپن کو متھرا میں 7 اکتوبر کو درج مقدمات میں ان پر دفعہ 124اے (ملک سے غداری) 153(مذہب کی بنیاد پر مختلف کمیونٹیوں کے درمیان نفرت وعداوت کا فروغ دینا)، اور 295 اے (جان بوجھ کر بدنیتی کے ساتھ کسی بھی کمیونٹی کے جذبات مجروح کرنا) کا الزام عائد کیا تھا، غیر قانونی سرگرمیوں، یو اے پی اے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے ساتھ آئین ہند کی دفعہ مذہبی عقائد کی توہین سمیت درج کیے گئے تھے، جب آج متھرا کی عدالت میں انہیں پیش کیاگیا تو کپن نے مبینہ طور پر کہاکہ میں ابھی بھی اپنے ملک کے آئین پر یقین رکھتا ہوں، لیکن یہ انصاف میں تاخیر ہے۔ یہ فرضی معاملہ ہے، پوری طرح فرضی ہے۔
حبس بے جاکی پٹیشن کے تحت عرضی داخل کرنے اور سپریم کورٹ میں ضمانت کی عرضی سمیت کپن کو ضمانت پر رہا کرانے کی ساری کوششیں ناکام ہوگئی ہیں، اس کے علاوہ منگل کو پریس کلب آف انڈیا، کیرل یونین آف ورکنگ جرنلسٹ، دہلی یونین آف جرنلسٹس کے ذریعے صدیق کی حمایت میں یوم سیاہ مناکر احتجاج درج کرایا۔

پی سی آئی صدر اوم کانت لکھیرا نے کہاکہ آج ہم نے اس پروگرام کا انعقاد کرکے کپن کو جیل میں رہنے کے ایک سال پورے ہونے پر کیا ہے، انہیں موقع پر جانے سے پہلے ہی گرفتار کرلیاگیا تھا، آج تک وہ سلاخوں کے پیچھے ہیں، ہم آزادانہ صحافت کےلیے لڑ رہے ہیں، اس پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے، اگر کوئی رپورٹنگ کےلئے موقعہ واردات پر جاتا ہے تو میڈیا پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ کھوجی صحافت دن بدن ختم ہورہی ہے، ہم ملک کی عدالت سے کپن کو رہا کرنے او ران کے خلاف عائد الزامات کو رد کرنے کی اپیل کررہے ہیں۔
کیرل یونین آف ورکنگ جرنلسٹس ، پی سی آئی اور دہلی یونین جرنلسٹس کی سربراہی میں منعقدہ احتجاجی پروگرام میں دیگر اہم صحافیوں نے بھی شرکت کی۔ واضح رہے کہ کپن اور تین دیگر کو یوپی کے متھرا میں پولس نے گزشتہ سال پانچ اکتوبر کو گرفتار کیاتھا، جب وہ اس دلت لڑکی کے اہل خانہ کے اراکین سے ملنے کے لیے ہاتھرس جارہے تھے، جس کی اجتماعی عصمت دری کے بعد موت ہوگئی تھی۔ چاروں کو امن وسلامتی میں خلل ڈالنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا لیکن بعد میں ان پر ملک سے غداری کا معاملہ اور دیگر سنگین دفعات عائد کیے گئے تھے۔ ڈی یو جی کے جنرل سکریٹری سجاتا ماھوک نے کہاکہ ہم آج یہاں اس لیے جمع ہوئے ہیں کیو ںکہ کپن اور ان کے ساتھ گئے دیگر لوگوں کو جیل میں بند ہوئے ایک سال مکمل ہوگئے ہیں، عدالت کو قدم اُٹھاناچاہئے ۔








