نئی دہلی :
اسمبلی انتخابات میں شکست کے بعد جہاں کانگریس میں انتخابی معاہدوں کو لے کر قومی پالیسی بنانے کی مانگ زور پکڑ رہی ہے ، وہیں پارٹی میں موجودہ انتخابات کے دوران کئے گئے اتحاد کو فوراً ختم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ پارٹی کا ایک بڑا طبقہ چاہتا ہے کہ آسام کانگریس کوفوری طور پر اے آئی یو ڈی ایف سے اپنے اتحاد کو توڑتے ہوئے مہا جوت کو ختم کردینا چاہئے۔
آسام اور کیرل سے انتخابات میں پارٹی کو سب سے زیادہ امیدیں تھیں۔ آسام میں مولانا بدرالدین اجمل کی پارٹی اے آئی یو ڈی ایف کے ساتھ اتحاد پارٹی کو مہنگا پڑا۔ کانگریس کے ایک سینئر لیڈر نے کہاکہ ہمیں اے آئی یو ڈی ایف کے ساتھ اپنا اتحاد فوراً توڑدینا چاہئے۔ اس کے لیے ہار کی وجوہات کاجائزہ لینے کے لیے کمیٹی کی رپورت کا انتظار نہیں کرنا چاہئے۔
کٹھ بندھن توڑنے میں تاخیرسے نقصان:
آسام اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی طرف سے انتخاب کی ذمہ داری سنبھال چکے کانگریس لیڈر نے کہاکہ اے آئی یو ڈی ایف کے ساتھ اپتا اتحاد ختم کرنے میں جتنا زیادہ وقت لگے گا، اس کا نقصان دوسری ریاستوں میں بھی ہو گا۔ آئندہ سال اترپردیش، اتراکھنڈ ، گجرات اور ہماچل پردیش میں انتخابات ہونے ہیں، کیونکہ بی جے پی اے آئی یو ڈی ایف رہنماؤں کے بیانات کے ذریعے پولرائز کرنے کی کوشش کرے گی۔
بنگال کی مثال :
مغربی بنگال پردیش کانگریس کے صدر ادھیر رنجن چودھری کے مستقبل میں انڈین سیکولرلر فرنٹ کے ساتھ کوئی رشتہ نہ رکھنے کے اعلان کی حمایت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں آسام میں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے، کیونکہ اس اتحاد سے پارٹی کو نقصان ہوا اور اے آئی یو ڈی ایف کو سیٹ کا فائدہ ہوا ہے ، حالانکہ اس کے ووٹ بینک میں پہلے کے مقابلے کمی آئی ہے ۔
کانگریس کا ووٹ فیصد کم ہوا:
اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو قریب 30 فیصد ووٹ کے ساتھ 29 سیٹیں ملیں۔ 2016 کے انتخابات میں پارٹی کوتقریباً 31 فیصد ووٹ ملے تھے اور 26 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اے آئی یو ڈی ایف کو اس سال 16 نشستوں کے ساتھ نو فیصد ووٹ ملا ہے۔ سال 2016 میں اے آئی یو ڈی ایف صرف 13 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ پارٹی رہنما نے کہا کہ اگر مولانا بدرالدین اجمل کا کانگریس سے معاہدہ نہ ہوتا تو یو ڈی ایف اتنی سیٹیں نہیں جیت پاتی۔