تحریر:شاہنواز بدر قاسمی
یہ حقیقت ہے کہ آج میڈیا زینت نہیں بلکہ ضرورت بن چکی ہے،چند برسوں قبل میڈیا سے عوامی دلچسپی اس قدر نہیں تھی کیوں کہ سوشل میڈیا کازمانہ نہیں تھا۔آج سوشل میڈیا کادور ہے،ہر خاص وعام اس وقت سوشل میڈیا پرسرگرم عمل ہیں۔اس وقت سوشل میڈیا کو ہم سب سے تیز رفتار عوامی میڈیا بھی کہ سکتے ہیں کیوں کہ انٹرنیٹ کی حد متعین کرنا آسان نہیں ہے۔سوشل میڈیا پر کوئی بھی خبر عام ہونے کے بعد اسے قابو میں کرنا ناممکن ثابت ہوتا ہے۔ذرائع ابلاغ کی مختلف شکلیں ہیں،مین اسٹریم میڈیا خاص طورپر مشہور ٹی وی چینل اور مختلف زبانوں کے اہم اخبارات تک آج بھی رسانی آسان نہیں ہے لیکن سوشل میڈیا کی کرم فرمائی کی وجہ سے ان میڈیاہاوس بھی ٹینشن کے دور سے گذررہے ہیں کیوں کہ عالمی سطح پر ہر انسان اپنی مرضی کی بات کہنے اور لکھنے کیلے آزاد ہوچکاہے اظہارراے کی اس آزادی نے میڈیا کی اصل حقیقت کو کافی حد تک متاثر کیاہے۔
ہمارے ملک میں ایک طویل عرصے تک مدارس اور ملی تنظیموں کااصل میڈیا ان اداروں سے شائع ہونے والے رسائل و جرائد ہی ہوتے تھے جہاں مذہبی مضامین کے ساتھ مکمل طورپر اپنی بات کہنا آسان تھالیکن وقت اور حالات کے ساتھ سب کچھ بدلتاجارہاہے،آج سے دس سال قبل تک مدارس اور ملی جماعتوں کی اہم خبریں بھی اردو اخبارات میں نہیں چھپ پاتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے،ہمارے ذمہ داران مدارس اور ملی جماعتوں کے سربراہان بھی اس اہم تبدیلی کو محسوس کرتے ہوئے خود کو بدل رہے ہیں،میڈیا کی اہمیت اور ضرورت سے خود کو نہیں بچاپائے ملک کی اکثر ملی جماعتیں اور بڑے مدارس اب اپنے یہاں باضابطہ میڈیا سیل یا پھر سوشل میڈیا ڈیسک کے نام سے الگ شعبہ قائم کردیاہے جہاں پروفیشنل طریقے پر ان اداروں کی خبریں اور اہم سرگرمیوں کو عوامی سطح پر پہنچانے کیلے اس شعبہ سے وابستہ افراد متعین ہیں۔یہ تبدیلی یقینی طورپر خوش آئند اور حوصلہ بخش ہے لیکن ابھی بھی میڈیا کے تعلق سے ہمارے منفی رویے میں کوئی خاص بدلاؤ نہیں ہے ہم نے اب تک میڈیا کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیاہے۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں بھی ابھی تک ہم ایسے افراد تیار کرنے کی کوئی پلاننگ اور منصوبہ بندی نہیں کی ہے جو بیباکی اور جرات مندی کے ساتھ سوشل میڈیا پر ہماری ترجمانی کرسکیں،دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں پرانے طرز کے شعبہ صحافت ضرور قائم ہیں جہاں ایسے نوجوان علماء کی تربیت کاخاص بندوبست ہے جو میدان صحافت میں آگے بڑھناچاہتے ہیں لیکن اب شعبہ میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
حال ہی میں جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر میں امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کی نگرانی وہاں طلباء کیلئے شعبہ صحافت قائم کیا گیا ہے جس کی ذمے داری نوجوان صحافی فضل رحماں رحمانی کے سپردکرکے ایسے فضلاء تیار کئے جارہے ہیں جو سوشل میڈیا کے اس دور میں اس شعبہ سے تربیت حاصل کرکے ملک و ملت کی ترجمانی کرسکے اور موجودہ وقت میں جو کمی محسوس ہورہی ہے اسے پر کرسکیں۔
میں ذاتی طورپرملک کے کئی بڑے مدارس کے ذمہ داران سے ملاقات کر یہ بات کہ چکاہوں کہ اپنے یہاں تکمیلات اور تخصصات کے دیگر شعبوں کی طرح اب ملٹی میڈیااینڈ مینجمنٹ کورس بھی شروع کیجئے تاکہ ہمارے نوجوان فضلاء اس میدان میں کسی سے پیچھے نہیں رہ سکیں، اس وقت مدارس سے فیض یافتہ بڑی تعداد میں سوشل میڈیا پر سرگرم عمل ہیں جس کاتصورکرنا ناممکن ہے لیکن آج بھی کام کے افراد تلاش کرنامشکل ہے، تربیت اور ٹیکنیکل معلومات کی کمی کی وجہ سے ہم سوشل میڈیا پر تمام تر صلاحیتوں کے باوجود کامیاب نہیں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جو مسائل و مشکلات ہمارے سامنے موجود ہیں اس کا عملی حل کیسے تلاش کیاجائے اور سوشل میڈیا کی معتبریت کا خیال رکھتے ہوئے اس وابستگی کو مزید کیسے مضبوط اور بہتر بنایاجاسکے۔سوشل میڈیا کی فعالیت محض فیس بک اور واٹس ایپ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں آپ عوامی بن کر دنیا کے ہر انسان تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔اس مختصر مضمون کے بہانے ملی جماعتوں اورذمہ داران مدارس سے چند گزاراشات کرنا چاہتاہوں امیدہے کہ توجہ فرمائیں گے۔
ملک میں جو معتبر ملی جماعت اس وقت سرگرم عمل ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے یہاں باقاعدہ ایسے تربیت یافتہ افراد رکھ کر اس شعبہ کو قائم کریں جو آپ کی ترجمانی کے ساتھ سوشل میڈیا پر اس ادارے کی تمام ترسرگرمیوں کو پیش کرنے کی صلاحیت رکھتاہے ساتھ ہی جماعت اپنی رسائی کے اعتبار سے سوشل میڈیا ورک شاپ کے بہانے ان ہزاروں نوجوانوں کی بھی تربیت کرسکتے ہیں جو اس وقت سوشل میڈیا پر بے لگام ہوچکے ہیں،ہمارے یہاں بے شمار ایسے نوجوان ہیں جن کی غلط فکر اور منفی سوچ کی وجہ سے مسلمانوں کو زبردست نقصان پہنچ رہاہے اگر وقت رہتے ہوئے ہم نے اس مسئلے کاعملی حل تلاش نہیں کیاتو زبردست نقصانات کااندیشہ ہے،سوشل میڈیا کا جہاں مثبت پہلوہے وہیں منفی پہلو بھی ہے اگر ہم نے جان بوجھ کر اسے نظرانداز کیاتو یقینا یہ ہمارے معاشرے کیلئے ایک ناسور بن جائے گا۔مسلم نوجوانوں کی فکری تربیت بہت اہم مسئلہ ہے جو آسانی سے ہماری ملی جماعت اس کام کو کرسکتی ہے۔اس کیلئے اس میدان کے چند ماہرین کے تعاون سے ملکی سطح کی تحریک چلانے کی ضرورت ہے ساتھ ہی میڈیا کے شعبہ میں ہمارے طلبہ کیسے کامیاب ہوں اس کیلئے باقاعدہ ٹیکنیکل ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پروفیشنل طریقہ پر ہم اپنے بچوں کو سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرسکیں۔
اسی طرح ہر بڑے مدارس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے یہاں دیگر شعبہ جات کی طرح سوشل میڈیا کیلے بھی باضابطہ کورس کرائیں اور مستقل شعبہ قائم کرکے عوامی سطح پر اسلام کے عملی تعارف اور اہم سرگرمیاں عوام تک پہنچانے میں اہم کرداراداکریں،اپنے یہاں ذمہ داران میں سے کسی ایک ایسے نوجوان کو ادارہ کاترجمان منتخب کریں جو میڈیا کی کارستانی اور حقیقت سے واقف ہوں اور اپنے ادارے کی صحیح ترجمانی کرسکیں،یہ دور سوشل میڈیا کاہے اس لئے ہر ادارے میں اس شعبہ کاقیام بھی بیحد ضروری ہے۔اس شعبہ کااستعمال بہت سے کاموں کیلئے کیاجاسکتاہے نہ صرف اپنی بات پہنچانے کیلے بلکہ اب آن لائن تعاون حاصل کرنے کیلئے بھی ضروری ہے کہ آپ کے ادارے کی سرگرمیا ں سامنے ہوں،اس سے نظام میں شفافیت کے ساتھ کام کومزید بہتر کرنے میں بھی آسانی ہوگی۔
اگرہمارے ذمہ داران مدارس اور ملی جماعتیں اگر چاہ لیں تو سوشل میڈیا پر کافی حد تک کنٹرول کیاجاسکتاہے لیکن شرط یہ ہے کہ اپنے حصہ کاکام خود کریں اور پوری ذمہ داری سمجھ کراس شعبہ کوفعال ومتحرک بنائیں اورمیڈیا کو اپنی بنیادی ترجیحات میں شامل کریں کیوں کہ آنے والاکل سوشل میڈیا کا ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)