تحریر:شیخ سلیم
اُتر پردیش انتخابات ختم ہوتے ہی ایگزٹ پول آنا شروع ہو گئے تھے اور تقریباً سبھی چینل اُتر پردیش میں بی جے پی اور پنجاب میں آپ کی کامیابی کی پیشین گوئی کر رہے تھے۔یہ کافی حیران کن تھے آخر کسانوں کے اتنے بڑے پیمانے پر احتجاجات،کووڈ سے ہونے والی اموات آکسیجن کی کمی سے ہونے والی اموات گنگا کے کنارے بہنے والی لاشیں، بڑھتی مہنگائی بے روزگاری پھر آخر میں روس یوکرین جنگ کی وجہ سے وہاں پھنس جانے والے ہمارے بیس ہزار کے قریب طلباء اور طالبات ایسا لگ رہا تھا شاید ووٹرز ناراض ہو کر بی جے پی کو شکست دے دیں گے۔ کانگرس کی مہم جس میں پرینکا گاندھی پیش پیش تھیں ،سماج وادی پارٹی کی مہم جس میں اکھلیش یادو نے مسلمانوں کو اپنے سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ اکثریتی فرقہ ناراض نہ ہو جائے۔ مجلس اتحاد المسلمین کی مہم، ہیلی کاپٹر سے ہر جگہ پہنچنے اور بڑی زوردار تقریریں کر کے حیدرآباد ماڈیول اترپردیش میں ایکسپورٹ کرنے کی کوشش ہر ممکن کوشش کی۔ مگر الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔ بی جے پی آخری اطلاعات آنے تک 403 سیٹوں والی اسمبلی میں 263 سیٹیں حاصل کر رہی ہے ،اُسے قریب 60 سیٹوں کا نقصان ہو رہا ہے۔سماجوادی پارٹی 135 سیٹیں حاصل کر کے اسے 85 سیٹوں کا فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔ وہیں بیچاری دیمک زدہ کانگریس صرف دو سیٹوں پر سمٹ چکی ہے۔ وہیں سب سے زیادہ نقصان بہوجن سماج پارٹی کو ہوا جس کو 18 سیٹوں کا نقصان ہوا ایک زمانے میں اُتر پردیش پر حکومت کرنے والی پارٹی شاید ایک یا دو سیٹوں پر سمٹ جائے۔ ایسا لگ رہا ہے اُتر پردیش کا پورا دلت ووٹ بی جے پی کی طرف شفٹ ہو چکا ہے۔ اُسے وہاں اقتدار میں برابری کی بنیاد پر کافی حد تک حصہ داری مل چکی ہے اس لئے وہ بہوجن سماج پارٹی سے دور چلا گیا ہے۔
5 مارچ کو انڈین ایکسپریس میں شیام لال یادو کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے اُتر پردیش میں واقع ہونے 1991کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں کا ذکر کیا ہے۔1960 کے بعد سے کچھ طبقات کو او بی سی قرار دیا گیا ہے۔ بھاجپا نے 1992 کے بعد یادو طبقے کو چھوڑ کر باقی سبھی او بی سی سماج سے رابطہ قائم کیا اور اُنہیں بڑی حد تک اپنے میں سمو لینے میں کامیاب ہوگئے۔ اور اس طرح انہوں نے یادو اور مسلم اتحاد کا توڑ نکال لیا، حالانکہ کئی او بی سی لیڈر بی جے پی کو چھوڑ کر سماج وادی پارٹی میں شامل بھی ہوئے مگر ایسا لگ رہا ہے اُن کے ووٹرز سماج وادی میں شامل نہیں ہوئے۔
نیشنل کمیشن آف بیک ورڈ کلاسسز نے 76 کاسٹ کو بطور او بی سی تسلیم کیا ہے 1980 کی منڈل کمیشن کی رپورٹ جسے 1994 میں نافذ کیا گیا کے مطابق بھارت میں او بی سی کی آبادی 52٪ ہے۔ وہیں اترپردیش میں ایک کمیٹی جس کا نام سوشل جسٹس کمیٹی تھا جسے 2001 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ راج ناتھ سنگھ نے بنایا تھا اس کے مطابق او بی سی کی آبادی 43٪ ہے۔
رپورٹ کے مطابق یادو 19 فیصد کرمی ،قریب 8 فیصد کچی، کشوہا، شاکیہ، موریہ، سینی، 7 فیصد لودھ، 5 فیصد جاٹ، 3 فیصد سے کچھ زیادہ کیوات نشاد، 4 فیصد پال بغال، 4 فیصد سے زیادہ کہار کشيپ، 3 فیصد اور راج بھر ڈھائی فیصد۔
چودھری چرن سنگھ سے ملائم سنگھ تک اور بیچ میں وی پی سنگھ سنگھ سبھی کو جیت دلانے والے او بی سی ہی رہے۔1990 میں لال قلعہ سے وی پی سنگھ نے یادگار تقریر میں منڈل کمیشن کی رپورٹ نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے توڑ کے طور پر اڈوانی کو بد نام زمانہ رتھ یاترا نکلی جس میں دس ہزار بے گناہ مارے گئے۔اور اس طرح بھاجپا نے منڈل کا توڑ تلاش کر لیا۔کلیان سنگھ اور راج ناتھ سنگھ نے بہت سارے او بی سماج کے لوگوں کو بھاجپا سے جوڑدیا جس میں جاٹ سماج بہت اہم ہے۔
2014 میں بی جے پی کی جیت کے بعد یہ سلسلہ مزید مضبوط ہوتا چلا گیا ہے۔ بی جے پی کو فتح دلانے والے برہمن ٹھاکر اور بنیا سب مل کراُتر پردیش میں تیس فیصد سے زیادہ ہوجاتے ہیں اس میں اگر او بی سی کا ووٹ اگر شامل ہو جائے تو بی جے پی کی جیت آسان ہو جاتی ہے، کیوں کہ باقی دوسرے فیکٹر جیسے پیسے کی طاقت کارپوریٹ سیکٹر کا ساتھ میڈیا کا بھر پور تعاون یہ سب مل کر بی جے پی کو جیتنے میں مدد کرتے ہیں اس کے علاوہ اب بھی بی جے پی تنظیمی سطح پر مضبوطی گاؤں دیہات اور ہر گلی محلے میں اُن کے آفس موجود ہیں۔
جہاں تک حزب اختلاف کی جماعتوں کا تعلق ہے اگر وہ سماج کے سبھی طبقات تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو وہ بھی کسی حد تک کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اُتر پردیش میں آنے والے وقت میں مسلمانوں کے لیے کئی چیلنجز پیش آ سکتے ہیں اگر انہوں نے سیاسی اتحاد اور دور اندیشی کا ثبوت نہیں دیا تو مشکلات پیش آ سکتی ہیں، اگر سیکولر پارٹیاں اُنہیں اپنے اسٹیج پر بیٹھانا نہیں چاہتی جیسا کے کانگریس اور سماج وادی پارٹی نے کیا تو مسلم ووٹر اب کوئی زیادہ خوف زدہ نظر نہیں آتا وہ چھوٹی مسلم نام والی پارٹیوں کے ساتھ تجربہ کر سکتا ہے ،رسک لے سکتا ہے۔ کیوں کے اب یہ صاف ظاہر ہے بھلے دینی جماعتیں اور ادارے فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دینے اور سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دینے کی اپیل کریں، مسلم ووٹر اپنے حساب سے ووٹ کرتا ہے اور اپنی مضبوط لیڈر شپ کی خواہش رکھتا ہے کیوں کہ چاہے ممتا بنرجی ہو، لالو پرساد یادو ہو، اکھلیش یادو ہو اورکیجریوال ہو سبھی نے دھوکہ دیا ہے اور مایوس کیا ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)