تحریر:اتکرش سنگھ
مکیش سہنی کی بدقسمتی بہار میں حکومت بننے کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی۔ انہیں وزیر تو بنایا گیا لیکن چونکہ وہ خود اپنی سیٹ ہار چکے تھے اس لئے انہیں قانون ساز کونسل میں بھیج دیا گیا۔ بی جے پی نے سب سے پہلے یہیں پر کھیل کردیا۔ سشیل مودی کی خالی ہوئی سیٹ ، جن کی مدت کار 4 سال رہ گئی تھی، اس پر شاہنواز حسین کو بھیجا ، جبکہ ڈیڑ ھ سال کے لیے بچی ونود نارائن جھا کی سیٹ پر مکیش سہنی کوقانون ساز کونسل بھیجا گیا۔
مکیش سہنی گورنر کوٹے سے 6 سال کے لیے کونسل میں جانے کی امید کر رہے تھے، لیکن 6 سال کی پوری مدت کے بجائے انہیں ڈیڑھ سال کے لیے بقیہ سیٹ کے لیے قانون ساز کونسل میں بھیج دیا گیا، جس کی میعاد اس سال جوائی میں ختم ہو رہی ہے۔ جبکہ گورنر کے کوٹے کی 12 نشستوں میں سے کوئی بھی سہنی کے کھاتے میں نہیں گیا۔
اس کے بعد یوپی کے انتخابات کی باری آئی جہاں مکیش سہنی نے کھل کر بی جے پی کی مخالفت کی، یہاں تک کہ یوگی آدتیہ ناتھ پر بھی کافی سخت حملے بولے۔ سہنی کو امید تھی کہ انہیں یوپی میں 1-2سیٹ مل جائے گی اور وہ یوپی کی سیاست میں بھی جگہ بنائیں گے ۔ الیکشن کے دوران سہنی مسلسل بی جے پی پر حملہ آور تھے ۔
دریں اثنا، مکیش سہنی کو بہار میں قانون ساز کونسل کی 24 سیٹوں پر ہونے والے انتخابات میں سیٹوں کی تقسیم میں ایک بھی سیٹ نہیں ملی اور انہوں نے بی جے پی کے خلاف امیدوار کھڑا کردیا، جبکہ جے ڈی یو کی حمایت کا اعلان کیا۔
بوچہاں ضمنی انتخاب پر تنازع بڑھ گیا
بوچہاں اسمبلی سیٹ مکیش سہنی کے کھاتے میں تھی، جہاں سے بی جے پی نے ایم ایل اے مسافر پاسوان کی موت کے بعد ہونے والے ضمنی انتخاب میں سہنی کو یہ سیٹ دینے کے بجائے اپنا امیدوار کھڑا کردیا۔ اسے بی جے پی کی سہنی کےتئیں ناراضگی کے طور پر دیکھا گیا۔ اس فیصلے سے ناراض سہنی نے بی جے پی پر حملہ کرتے ہوئے اس سیٹ سے اپنا امیدوار کھڑا کردیا اوربدھ کو وہ اپنے امیدوار کی نامزدگی میں شرکت کے لیے مظفر پور گئے تھے۔
جب سہنی اپنے امیدوار کاپرچہ نامزدگی کر ارہے تھے، ادھر بی جے پی نے کھیل ختم کرنے کا فیصلہ لیا اور وی آئی پی کے تینوں ایم ایل ایز کو اپنی پارٹی میں شامل کرا لیا۔ چونکہ وی آئی پی کے سارے ایم ایل اے پہلے سے ہی بی جے پی کی حمایت اور کارکنان تھے اور انہیں اسمبلی انتخابات میں سیٹ تقسیم کی مجبوریوں کی وجہ سے وی آئی پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑایا گیا تھا ۔ اس لئے یہ بی جے پی کے لئے کافی آسان تھا۔ وی آئی پی کے ایم ایل اے زیادہ تر مواقع پر سہنی کے اسٹینڈ سے برعکس کھڑے رہتے تھے ۔ سہنی کو اپنے ایم ایل ایز کی بھی حمایت حاصل نہیں تھی ۔
مکیش سہنی کا سیاسی کیریئر
مکیش سہنی نے 2013 میں بہار کی سیاست میں قدم رکھا اور 2014 کے لوک سبھا اور 2015 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی حمایت کی۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے مکیش سہنی نے مہا گٹھ بندھن کا دامن تھام لیا اور جب یہ لوگ رہا تھا کہ 2020 کے اسمبلی انتخاب میں بھی وہ آر جے ڈی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑیں گے تب سیٹ تقسیم سے ناخوش ہو کر انہو ںنے مہا گٹھ بندھن کی پریس کانفرنس میں ہی تیجسوی پر ’پیٹھمیں چھرا‘ گھونپنے کا الزام لگا کر مہا گٹھ بندھن چھوڑ دیا۔
جس کے بعد بی جے پی نے انہیں اپنے ساتھ لے کر حکومت بنائی، حالانکہ تیجسوی مسلسل مکیش سہنی کو ریچارج کوپن کہتے رہے ہیں اور بدھ کو جو کچھ ہوا اس سے صاف ہے کہ سہنی کا کوپن ختم ہو چکا ہے۔
(بشکریہ : دی کوئنٹ )