تحریر: شاہد صدیقی علیگ
یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ جنوبی ایشیا میں اسلام کے ظہور سے لیکرانیسوی صدی تک سرسید احمد خاں جیسا نابغہء روزگار کوئی دوسرا نظر نہیں آتا، جس نے زندگی کے ہر شعبہء پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہوں، جن کی دانائی ، بے باکی اور سیاست وفراست کے نادر نمونے تصانیف کی شکل میں آج ہمارے سامنے موجود ہیں، انہوں نے اپنی طلسماتی تحریر وتقریر سے وقت کے دھارے کو موڑنے کی مساعی جمیلہ کی، تحریک آزادی 1857ء کے حوالے سے سرسید کی چار معرکۃ الآرا تصانیف’’تاریخ سرکشی بجنور ،اسباب بغاوت ہند، رسالہ خیر خواہان مسلمانان ہند اور ہندوستانی امور کے برٹش وزیر لارڈ کے نام ایک خط‘ ہیں۔
سر سید احمد خان ایک عظیم دانشور، بلند پایہ مفکر،مستقبل شناس ، ماہر تعلیم، تاریخ نویسی کے سرخیل اورمصلح قوم تھے ۔جن کی پیدائش 17؍اکتوبر 1817ء کو دہلی کی ایک معزز شخصیت سید متقی کے گھر ہوئی جو مغل شہنشاہ اکبر شاہ ثانی کے مشیر تھے، جبکہ ان کے دادا سید ہادی عالمگیر کے دربارمیں نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ سرسید نے آنکھیں کھولی تو گردوپیش میںعلم وفضل اور امارت وریاست کو جلوہ گردیکھا،سرسید احمد خاں جب بیس برس کے ہوئے تو والد 1837ء میں دارفانی سے کوچ کرگئے ،جو ان کے اوپر بجلی گرنے کے مماثل تھی ، اگر سرسید احمد خاں چاہتے تو اس نازک گھڑ ی میںاپنے خاندانی روایت کے مطابق مغلیہ دربارسے منسلک ہوجاتے ، مگر سرسید نباص وقت تھے انہوں نے اپنے ماموں خلیل اللہ خاں ( کمپنی سب جج) کی تقلید کرتے ہوئے ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملازمت کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ بات روز اول کی طرح روشن ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی برصغیر میں تجارت کے حیلے سے داخل ہوئی اور آہستہ آہستہ اپنے مکر و فریب اور عیاری سے ملک کے مقدر کا فیصلہ کرنے لگی، ویسے تو غیرملکی سوداگروں نے موقع ومحل کی مناسبت سے اپنی عیارانہ ڈپلومیسی کا آغاز کیا تھا لیکن ’خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا ‘ کے مترادف ایسے ناعاقبت اندیش فیصلے بھی لیے کہ انہیں اپنی حماقت کے غیر متوقع مضمرات کا سامنا کرنا پڑا۔ انگریزوں نے اعلانیہ عیسائی مبلغین کو مذہب کی تبلیغ کے لیے ملک کے طول وعرض میں بھیجا گیا، آراضی کے قوانین میں تبدیلی کے نام پر بڑی بڑی جاگیریں ختم کر دی، دیسی ریاستوں کا الحاق کر کے مقامی فوج توڑ دی اور دیسی سپاہیوں کو چربی لگے کارتوس چلانے کا حکم دیا، جس کا ردعمل پہلی ملک گیر جنگ آزادی 1857ء کی شکل میں منظر عام پر آیا۔
10؍مئی1857ء کو جب میرٹھ میں دیسی سپاہیوں نے بغاوت کا ناقوس پھونکا تو سرسید احمد خاں اس وقت بجنور میں صدر امین کے عہدے پر مامور تھے، جن کا قلعہ معلی سے دیرانیہ رشتہ تھا جو جانتے تھے کہ مغلیہ سلطنت اپنے سفر کے آخری پڑاؤ پر پہنچ چکی ہے، لہٰذا وسیع النظر سر سید نے بڑی جرأت مندی اور ہمت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے روہیلہ سردار نواب معین الدین خاں کے فرزند محمود علی خاں کو تحریک آزادی سے دور رہنے کے لیے متنبہ کیا۔
’’خداکی قسم نواب صاحب میں تمہاری خیر خواہی سے کہتاہوں کہ تم اس ارادہ کو دل سے نکال دو حکام انگریزی کی عملداری کبھی نہیں جائے اگرفرض کرو کہ تمام ہندوستان سے انگریز چلے گئے تو بھی حکام انگریزی کے سوا کوئی عملداری ہندوستان میں نہ کر سکے گا او ر میں نے کہا کہ تم اطاعت سرکار اپنے ہاتھ سے مت دواگر بالفر ض انگریز جاتے رہے جیسا کہ تمہارا خیال ہے تو تم نواب بنے بنائے ہوتمہا ر ی نوابی کوئی نہیں چھینتا اوراگر میرا خیال سچ ہے تو تم خیرخواہ سرکار ہوگے اور سرکار کی طرف سے تمہاری ترقی اور بہت قدر ہووے گی ۔‘‘
درج بالا اقتباس پڑھ کر ان کا احساس وشعور، عاقبت اندیشی اور دانشوارنہ بصیرت سامنے آجاتی ہے مگر ستم بالائے ستم وطن پرستی کے نشے سے سرشار نواب محمود علی خاں نے ان کے صلاح ومشورے پر عمل تو کجا غور کرنا بھی گوارہ نہ کیا ، اگر دیکھا جائے تو دونوں کی نیت بخیر تھی مگر فرسودہ ہتھیاروں اورناآزمودہ کار فوجیوں کے بل پر اعلیٰ تکنیک،جدید اسلحہ ، عصری مواصلاتی نظام سے لیس حریف سے بازی سر کرناناممکن تھا،چنانچہ جدوجہد آزادی کی ناکامی کے بعد اس کے نتائج نہ صرف نواب محمود علی خان نے بلکہ پورے ہندوستان کے بے گناہ افراد نے بھی بھگتے۔
استخلاص وطن کی عمومی تحریک یعنی غدر کا سارا ذمہ دار انگریزوں نے مسلمانوں کو ٹھہرایا ۔سرجیمس آوٹرم رقم طرارہے کہ:
’’دراصل 1857 ء مسلمانوں کی سازش تھی ۔یہ لوگ ہندوئوں کی شکایات کو بڑھا چڑھا کر بیان کررہے تھے تاکہ لوگوں کو بھڑکائیں ،لیکن میرٹھ کی فوج کے کارتوسوں کے قصے سے یکایک بھڑک اٹھی اور سازش کا مواد پکنے سے پہلے ہی پھٹ گیا۔‘‘
چنانچہ فرنگیوں کا سار انزلہ مسلمانِ ہند پر گرنا لازم تھا،جوش انتقام میں دہلی ،کانپور، الٰہ آباد، لکھنؤ،مراد آباد ،پٹنہ اورعلی گڑھ وغیرہ میں مجاہد ین کے ساتھ ساتھ نہتے شہریوں پر ظلم وستم کے ایسے پہاڑ توڑے کہ منگلولیا کی مٹی میں دفن چنگیز خاں، اور ایران میں دفن ہلاکو خاں و نادر شاہ کی روحیں بھی شرمسار ہواٹھیں، برطانوی فوجیوں نے لوٹ ماراور انسانیت سوز قتل وغارت گری کابازار گرم کردیا ، ہنستی کھیلتی بستیوں کو ویران کردیا، مظلوموں کی آو وبکا چیخ وپکار سے آسمان تھرا اٹھا،خصوصاً مسلمانوں کو ہر شعبہ ء حیات میں پچھے دھیکنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی و ضع کی گئی، جس نے برصغیر کے مسلمانوں کی حالت قابل رحم اور ناگفتہ بہ بنا دی ۔ایسے موقع پر سرسید احمد ڈوبتی ہوئی کشتی کے ایک ناخدا بن کر سامنے آئے ۔
سرسید احمد خاں بہ ذات خودغدر 1857ء سے متاثر ہونے والے افراد میں سے ایک تھے،انہوں نے موت کو بہت قریب سے دیکھاجن کا اپنا گھر لوٹا،جنہوں نے میر ٹھ میں اپنی والدہ عزیز انساء کو کھویا تودلی میں اپنے ماموں وحید الدین خاں اور ماموں زاد بھائی ہاشم علی خاں کو کمپنی بہادر کے سکھ سپاہیوں کا شکار بنتے ہوئے سنا۔سر سید احمد خاں نے آثار الصنادید میں دہلی کی جن عظیم شخصیات کا تذکرہ کیا تھا ، ان میں سے بیشتر ناگہانی موت کا لقمہ اجل بن چکے تھے یا اپنی جان بچانے کے لیے چھپے ہوئے تھے، مگر جس طرح سونا تپ کر کندن بن جاتا ہے ،اسی طرح سرسید عظیم انقلاب سے گزرنے کے بعد اس منفرد ہستی کی شکل میں جلوہ گر ہوتے ہیں جس نے اپنی زندگی کے ہر سانس کو قوم وملت کے لیے وقف کردیا ۔
سرسید نے 1857ء کے ہنگامہ فرو ہونے کے بعد انگریزوں کے گلے شکوے اور غلط فہمی کا ازالہ دورکرنے کے لیے اسباب بغاوت ہند لکھ کر ایک تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا جس میں غدر کے محرکات اور اسباب میں برطانوی ارباب مجازکی سنگین ومجرمانہ لاپروائیوںکو قصور وار ٹھہرایااورنہایت دانشمندی سے مسلمانوں کو بغاوت کے ہراول دستے کے الزام سے بچانے کی سعی کی ۔ مسودے کی اشاعت ہوتے ہی فی الفور حکومت ہند اور حکومت برطانیہ کو اس کی کاپیاں ارسال کی ، چونکہ انہوں نے ایسے دگرگوںحالات میںمذکورہ تصنیف کی طبع آزمائی کی کہ جب لب کشاں کرنا ہی اپنی موت کو دعوت دینا تھا لہٰذا ان کے ناقد بھی ان کی حق گوئی، جرأت اور دلیری کے قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔
اسباب بغاوت ہند کا اقتباس ملاحظہ ہو:
’’مسلمانوںکابہت زوروں سے آپس میں سازش اور مشور ہ کرنا اس ارادہ سے کہ ہم باہم متفق ہوکر غیر مذہب کے لوگوں پر جہاد کریں اور ان کی حکومت سے آزاد ہوجاویںنہایت بے بنیاد بات ہے جب کہ مسلمان ہماری گورنمنٹ کے مستامن تھے۔‘‘
سرسید احمد خاں کی تیسری کاوش رسالہ خیر خواہ مسلمانان ہے ،جسے ششمائی جریدہ کہنا بے جا نہ ہوگا، اس میں ایام سرکشی میں کمپنی کے تئیں مسلمانوں کی وفادارنہ کارگزاری کا مفصل اور مستند جائزہ پیش کیا گیا جو تین حصوں میں شا ئع ہوا تھا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ’’1857 ء کے غدر نے سرسید احمد خاں کی طبیعت کے ساتھ وہی کام کیا جو ایک بجلی گرنے کے واقعہ نے لوتھر کے ساتھ کیا تھا۔‘‘
موخر الذکر تصانیف کی روشنی میںسرسید کے نظریے، غور فکراور عمل کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ انگریزوں کے ملازم اور بہی خواہ ضرور تھے، لیکن انہوں نے اگر ایک طرف انگریز وں کی مدح سرائی کی ہے تو دوسری جانب انہیںآئینہ دکھانے میں بھی پیچھے نہیں ہٹے ، کیونکہ ان کی پہلی ترجیح موج طلاطم سے گھیرے اہل ہند خصوصاً مسلمانوں کے سفینہ کو کنارے لگا نا تھا اور انہیں تعلیم کے ذیور سے آرا ستہ کرکے کھوئی ہوئی راہ پر گامزن کرنا تھا،جس کے لیے وہ بڑی سے بڑی قیمت بھی چکانے کے لیے تیار تھے ۔