تحریر:شعیب رضافاطمی
سیاسی نوٹنکی جاری ہے۔ ان دنوں سب سے زیادہ سیاسی مبصرین فیس بک پر پائے جاتے ہیں۔ اور ان میں بھی اکثر وہ لوگ ہیں جنہیں حیدرآباد سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ یوں تو باقی کے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو حیدرآباد سے ویسے بھی کبھی محبت نہیں رہی کیونکہ سنا جاتا ہے کہ کسی دور میں ٹیپو سلطان کو سب سے زیادہ نقصان نواب حیدرآباد نے ہی پہنچایا تھا اور اس کی شہادت کا سبب بھی نواب حیدرآباد ہی تھا۔ انگریز تو خواہ مخواہ بدنام ہیں اور مہاراجہ سندھیا ہوں یا مراٹھے، پونا کے راجہ ہوں یا دہلی کے ان سب لوگوں کے تو ٹیپو سلطان ہیرو تھے۔
بہر حال آزادی کے بعد ہندوستانی فوج نے ٹیپو سلطان کا بدلہ تو نواب حیدرآباد سے لے لیا اور اسے مجبور کر دیا کہ وہ چین کے ساتھ ہونے والی پہلی جنگ میں ہمیں کئی ٹن سونا دے جس سے ہندوستان کی سرکار اپنی فوج کو مسلح کرسکے۔ یہ الگ بات ہے کہ سیکولر ہندوستان کے حکمران آج تک ٹیپو سلطان کو سرکاری طور پر شہید کا درجہ نہ دے سکے کیونکہ انہیں یہ خوف ہمیشہ دامن گیر رہا کہ اگر ٹیپو سلطان کو قومی ہیرو قرار دیا تو پھر اس تاریخ کا کیا ہوگا جس کے مطابق ٹیپو سلطان ہندوؤں کا گوشت بڑے چاؤ سے کھاتا تھا اور ایک آدھ مندر توڑے بغیر وہ ناشتہ بھی نہیں کرتا تھا۔
بہر حال کہنا یہ تھا کہ آزادی کے بعد پولیس ایکشن کے تحت مارے گئے ہزاروں حیدرآبادی بھی غدار تھے اور ٹیپو سلطان تو تھا ہی غدار۔ ایسے میں یہ جو نیا حیدرآبادی ورژن کا ٹیپو سلطان حیدرآباد سے نکل کر سیاسی پتنگ بازی کے لئے شمالی ہندوستان میں وارد ہوا ہے اس کے خلاف ہماری ملت کے بیدار لوگوں نے جو مہم چلائی ہوئی ہے اس کی جتنی بھی ستائش کی جائے وہ کم ہے۔ ملک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اتنی شدو مد کے ساتھ تو سرسید احمد خاں کی بھی مخالفت نہ ہوئی تھی جب انہوں نے علی گڑھ میں انگریزی طرز کے مدرسہ کی بنیاد ڈالی تھی اور نہ ہی محمد علی جناح کی جب انہوں نے پاکستان کی مانگ کی تھی۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ اسد الدین اویسی کے دماغ میں یہ سودا کہاں سے سمایا کہ انہوں نے شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کو ہاتھی والوں، سائیکل والوں، چکر والوں، پھول والوں اور پتیوں والی کی غلامی سے نجات دلانے کی سوچی۔ داڑھی ٹوپی اور شیروانی پہن لینے کا یہ مطلب کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ مولانا آزاد ہو گئے۔؟ اور کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اس خطے کے لوگوں نے مولانا آزاد کا کیا حشر کیا تھا… اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اسی علاقہ میں علماء کی ایک بڑی تنظیم نے مولانا آزاد کو علما کی جماعت کا سربراہ بنانے سے انکار کر دیا تھا اور جس سے بد دل ہوکر مولانا کو گاندھی جی اور ان کی بکری کی پناہ میں جانا پڑا تھا۔ بڑے آئے مولانا آزاد بننے اور مسلمانوں کو سیاسی آزادی دلانے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)