تحریر:محمد شریف فلاحی
( جامعہ مصباح العلوم،چو کونیاں،)
سائنس اور ٹکنالوجی کی اس عہد زریں میں ایک طرف جہاں نقل مکانی آسان ہوئی،معیار تعلیم بلند اور جدید ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعہ خبر رسانی ہمہ گیر ہوئی، دیہات قصبوں، قصبے شہروں اور شہر میٹرو سٹیز میں تبدیل ہونے لگے تو دوسری طرف خاندان میں پائے جانے والے روایتی یا مذہبی اخوت و محبت، ہمدردی وغم گساری ، ایثار وقربانی ، باہمی تعاون ، صلہ رحمی جیسے خوشگوار اخلاقی اقدار کا خاتمہ ہونےلگا۔جس کی وجہ سے بغض ونفرت، عداوت و منافقت، خود غرضی ونفس پرستی، بد عہدی وچوری ، جھوٹ اور فریب جیسے رذائل خوشگوار خاندانی نظام کو مکدر کرنے لگے۔ گھریلو تشدد کے واقعات رونما ہونے لگے۔ نیشنل کرائم رپورٹ بیورو(National Crime Report Bereau)کے مطابق سال میں 4.5گھریلو تشدد کے واردات ہوئے تو اسی رپورٹ کے مطابق جنسی استحصال کے 19936؍جرائم درج کئے گئے۔ خوشگوار خاندانی نظام کا تصور رکھنے والے فرد کے لئے یہ اعداد وشمار مایوس کن تو نہیں لیکن حوصلہ شکن ضرور ہے۔
وطن عزیز کی موجودہ خاندانی صورت حال اس لئے مزید تشویشناک ہے کہ یہاں علماء ، مصلحین،مجددین، اولیاء، صوفیوں، سادھوئوں و سنتوں نے عائلی ، خاندانی اور تہذیبی قدروں کی بحالی واستحکام کے حوالے سے اپنے اپنے دور میں الگ الگ انداز میں نمایاں کارنامے انجام دیتے رہے ہیں۔ لیکن خاندان کے اخلاقی اقدار کا اس طرح دیوالیہ نکل گیا کہ ان کے اجلے نقوش مغربی تہذیب وثقافت اور خود غرضی ونفس پرستی کے دبیز چادر سے ڈھک گئے ہیں اب ان کے نقوش خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ ملک کی موجودہ ناگفتہ بہ خاندانی نظام پر قابو پانے کے لئے درس ذیل نکات پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
1- صلہ رحمی:
صلہ رحمی اور رشتوں کا احترام واستحکام مضبوط وخوشگوار خاندان کی بنیادی اینٹوں میں سے ایک اہم اینٹ ہے۔ جسے حسب موقع وسہولت ملاقات، عید ودیگر تقریبات میں شرکت، عیادت، تعزیت، حسب ضرورت تعاون، بڑوں کے احترام، چھوٹوں سے شفقت، پُرخلوص مشوروں ورہنمائی، خندہ پیشانی سے ملاقات، تحائف کے تبادلے، باہم خوش طبعی، مختلف مواقع پر الوداع واستقبال وپیہم نشست وبرخاست سے مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر اس اینٹ کے کمزور ہونے سے مضبوط خاندان کا تصور مشکل ہی نہیں محال ہے۔ نبی مکرم ﷺ نے صلہ رحمی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’جسے روزی میں کشادگی اور درازیٔ عمر پسند ہو اسے صلہ رحمی کرنی چاہئے۔‘‘
2- ایثار و قربانی:
ایثار وقربانی صحت مند اور مضبوط خاندان کے ابواب میں سے ایک اہم باب ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ افراد خانہ ایک دوسرے کی ترقی کے لئے باہمی تعاون اپنا اخلاقی ودینی فرض تصور کریں۔ دوسروں کی شدید ضروریات کو اپنی عمومی ضروریات پر ترجیح دیں۔ قرآن کریم اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے، ’’وہ لوگ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ‘‘وقت ،مال ودیگر وسائل سے افراد خانہ ایک دوسرے کا تعاون کریں۔ چھوٹی چھوٹی لغزش وچوک کو قطع تعلق کا ذریعہ نہ بننے دیں بلکہ عفو ودرگزر کرتے ہوئے اسے فراموش کر دیں۔
3- بچوں کی تربیت:
خاندانی نظام کو بہتر بنانے کے لئے بچوں کی تربیت نہایت ہی ناگزیر ہے۔ اسی لئے روز اول ہی سے بچوں کو نشست برخاست، کھانے و پینے اوردیگر امور کے آداب واذکار مسنونہ سکھائے جائیں، چھوٹی چھوٹی لغزش پر فوری طورپر گرفت کی جائے، عبادات ودیگر دینی مجالس میں اپنے ساتھ رکھیں اور ان کے سامنے ایسے حرکات وسکنات سے گریز کریں جو ان کے ذہن کو مسموم اور تربیت کو متاثر کریں اور حسب ضرورت سختی کی نوبت آجائے تو اس سے بھی گریز نہیں کرنا چاہئے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ’’جب بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز کی تلقین کیجئے اور جب دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر انہیں سزا دیجئے۔‘‘
4- والدین سے حسن سلوک:
جس گھر میں والدین کی تعظیم کی جاتی ہے افراد خانہ جملہ مسائل ونزاع میں ان سے رجوع کرتے ہیں اور ان کے فیصلے پر سمع وطاعت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو وہاں گھریلو مسائل بہت کم پائے جاتے ہیں اور اس حسن سلوک اور سمع طاعت کااثر آنے والی نسلوں اور نونہالوں پر پڑتا ہے۔ اس طرح والدین کے ساتھ حسن سلوک خاندان کی تعمیر میں نمایاں رول ادا کرتا ہے۔
5- شعور وآگہی:
خاندانی نظام اسی وقت خوشگوار اور صحت مند ہو سکتا ہے کہ جب گھر کے جملہ افراد اپنے اپنے فرائض وحقوق سے کماحقہ آگاہ رہیں ۔ جب گھر یا خاندان کے جملہ افراد یعنی ماں، باپ،شوہر،بیوی، ساس، سسر، بہو، نند، چچا، دادا، دادی، نانا، نانی ودیگر رشتے دار اپنے حقوق وذمہ داریوں کو سمجھیں گے اسےکماحقہ ادا کرتے رہیں گےاور ایک دوسرے کے جذبات واحساسات کی قدر کریںگےتو گھریلو تشدد کے نہ واقعات ہوںگے اور نہ باہم بدگمانیاں جنم لیں گی اور صحت مند خاندان کا فروغ ہوتا رہے گا۔
6- فیملی کونسلنگ:
لڑکی ولڑکے کی شادی سے قبل یا شادی کے فوری بعد فیملی کونسلنگ کا اہتمام خوشگوار اور مضبوط خاندانی نظام کے لئے سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ اس کونسلنگ کے ذریعہ سے لڑکے اور لڑکی کو آنے والی زندگی کے نزاکتوں، مسائل، مشکلات، ذمہ داریوں، حقوق وفرائض کا ادراک ہوگا تو گھر کا ماحول بہتر بنانے میں نمایا رول ادا کر سکیں گے۔
7- فیملی اجتماع :
خاندانی نظام کو بہتر بنانے میں فیملی اجتماع نمایاں رول ادا کرتا ہے۔ منصوبہ بند طریقے سے اگر اسے تواتر کے ساتھ انجام دیا جائے تو اسلامی تعلیمات سے افراد خانہ آگاہ ہوں گے، ان کے اندر نظام زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کا شعور پختہ ہوتا چلا جائے گا اور آنے والے چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل وہ خود تلاش کریں گےو خاندانی نظام کو جوڑنے کی حتی المقدور کوشش کرتے رہیں گے۔
8- اسلامی تعلیمات سے گھروں کو آراستہ کرنا:
ہمارے گھر کے جملہ مناسب گوشے قرآنی آیات، احادیث، اقوال زریں واذکار کے جداریے (Wall paper)سے آراستہ ہوں تاکہ گھر کے نونہالوں کے قلب ذہن پر خوشگوار اسلامی تعلیمات کے نقوش ثبت ہوتے رہیں۔جن کے ہاتھ میں آگے چل کر خاندانی نظام کو سنبھالنے کی ذمہ داری آنے والی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مذکورہ نکات پر عمل کرنے سے خاندان یا گھر کا نظام ایسا خوشگوار اور صحت مند بنیاد پر قائم ہوگا کہ جس کے ذریعہ سے افراد خانہ کے کلام میں صداقت شعاری، اخلاق میں پاکیزگی، روح میں لطافت، جسم میں طہارت، فکر میں سلجھائو، طبیعت میں سلامت، مزاج میں اعتدال اور اخلاق میں پاکیزگی محسوس کی جائے گی اور دیگر اقوام وملل کے لئے رول ماڈل مضبوط خاندان کے طور پر شمار کیا جائے گا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)