تبصرہ: سید سعادت اللہ حسینی
برادرعزیز و محترم جناب سید عبید الرحمٰن ان دنوں جنگ آزادی میں مسلمانوں کے کردار پر نہایت قابل قدر علمی و تحقیقی کام انجام دے رہے ہیں۔ اب تک اس موضوع کے مختلف گوشوں پر ان کی تین وقیع کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
1۔ Muslim Freedom Fighters: The Contribution of Indian Muslims in the Independence Movementجس کا اردو ترجمہ بھی مسلم مجاہدین آزادی کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔
2۔Ulema’s Role in India’s Freedom Movements with Focus on Silk Letter Movement
3۔Biographical Encyclopedia of Indian Muslim Freedom Fighters
تینوں کتابیں سنجیدہ تحقیقی اسلوب میں تحریر کی گئی ہیں۔ مصنف نے اردو اور انگریزی کی بلند پایہ کتابوں، سفر ناموں، آپ بیتیوں اور سرکاری دستاویزات کو اپنی تحقیق کی بنیاد بنایا ہے، ہر دعوے کے لیے ٹھوس حوالے فراہم کیے ہیں۔ اورانتہائی عرق ریزی سے تحریک آزادی کے بعض نہایت اہم پہلووں کو سامنے لایا ہے۔ ان کتابوں سے اس بات کے لیے معتبر علمی بنیادیں فراہم ہوجاتی ہیں کہ آزادی کی تحریک کی شروعات سے لے کر اسے کامیابی کی منزل تک پہنچانے تک، ہر مرحلےپرمسلمانوں کا نہایت کلیدی رول رہا ہے۔ پہلی جنگ آزادی جسے غدر کا نام دیا گیا،اس میں ہر طبقے کے مسلمانوں کی غیر معمولی قربانیاں رہی ہیں۔ ان قربانیوں کی دل دہلانے والی تفصیلات بھی مصنف نے جگہ جگہ رقم کی ہیں۔ قربان ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد علماء کی تھی لیکن علماء کے ساتھ سرکاری افسران و عہدیداران ، ریاستوں کے وزراء و اہل کار اور عام مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی جس نے طرح طرح کی قربانیاں پیش کیں۔ اسی طرح تحریک آزادی کے بعد کے مرحلوں میں بھی اپنے حوصلے و استقامت کے ساتھ مسلمانوں نے اس تحریک کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
اس وقت کئی پہلووں سے اس علمی کام کی اہمیت ہے۔ یہ سال ملک میں آزادی کی پلاٹینیم جوبلی کے سال کے طور پر (آزادی کا امرت مہوتسو) منایا جارہا ہے۔ دوسری طرف فرقہ ہرست قوتیں ہر محاذ پر مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ اس پس منظر میں عبید الرحمن کی یہ تصنیفات تاریخ کا ایک نہایت اہم باب روشن کرکے اہل ملک کے سامنے لانے کا کام کررہی ہیں۔
ان کتابوں کو علمی حلقوں میں جو پذیرائی مل رہی ہے اور مین اسٹریم میڈیا بھی ان کو جو اہمیت دے رہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبید الرحمن صاحب کی محنت رنگ لارہی ہے۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ ان تصنیفات کا ہندی اور علاقائی زبانوں میں بھی ترجمہ ہو اور انہیں بڑے پیمانے پر اہل ملک کے درمیان عام کیا جائے۔