دوحہ:جہاں بین الاقوامی حلقے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے مذاکرات اور حماس اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ گھنٹوں کے دوران قیدیوں کے تبادلے میں ریکارڈ کی گئی ایک اہم پیش رفت کے بارے میں بات کر رہے ہیں، وہیں ایک نئی چیز سامنے آئی ہے۔اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون ساعر نے تصدیق کی کہ قیدیوں کے معاہدے میں واقعی پیش رفت ہوئی ہے۔انہوں نے اپنے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ لیمی سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ اسرائیل ایک معاہدے تک پہنچنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ آیا حماس بھی اس میں دلچسپی رکھتی ہے یا نہیں؟۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ رہائی کے معاہدے کو محفوظ بنانے کے لیے اب "گہری” کوششیں جاری ہیں۔برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے القدس میں اسرائیلی وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔فریقین نے ایران، شام اور لبنان سمیت متعدد علاقائی مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔اس کے برعکس حماس نے آج پیر کو اعلان کیا کہ وہ جلد ہی قیدیوں کی آزادی کی تاریخ طے کرے گی۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیر خزانہ بزلیل سموٹرچ نے اس پیش رفت پر تنقید کی، جب یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ قطر میں غزہ میں لڑائی روکنے اور قیدیوں کی واپسی کے لیے کام ہو رہا ہے۔
اسرائیلی وزیر نے کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اسے "ہتھیار ڈالنے” کا سودا سمجھا جانا چاہیے۔انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ جس معاہدے پر کام کیا جا رہا ہے وہ اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے تباہی ہے۔
یہ پیشرفت پیر کے روز بات چیت سے واقف ایک اہلکار کے اس انکشاف کے بعد سامنے آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قطر جو دونوں فریقوں کے درمیان ثالثی کر رہا ہے نے انہیں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے "حتمی” مسودہ منظوری کے لیے سونپا ہے۔رائیٹرز کی خبر کے مطابق اہلکار نے بتایا کہ دوحہ میں آدھی رات کے بعد ایک پیش رفت ہوئی ہے۔انہوں نے وضاحت کی کہ یہ پیش رفت اسرائیلی انٹیلی جنس رہ نماؤں، مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وٹ کوف اور قطری وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمن آل ثانی کے درمیان بات چیت کے بعد سامنے آئی
بہرحال اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ کی پٹی میں فائر بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کا سرکاری اعلان قریب آ چکا ہے تاہم بعض نکات ابھی تک معلق ہیں۔