تحریر: ڈاکٹر ابھے کمار
در اصل ڈاکٹر لوہیاکی سوچ غریب پَرور تھی۔ وہ برابری میں یقین رکتھے تھے۔ ان کے نزدیک ذات پات کے خلاف لڑائی اقتصادی لڑائی سے جدا نہیں تھا۔ اسی طرح وہ حقوق نسواں کے بھی بڑے علمبردار تھے۔ ان کو لگتا تھا کہ نا انصافی کے خلاف ہر محاذ پر لڑائی ہونی چاہیے۔لوہیا یہ جی چاہتے تھے کہ سرکار صحت ، تعلیم اور روز گار کے لیے کام کرے اور غیر برابری کو دور کرے۔ غیر برابری غریب ملک اور امیر ملک کے درمیان بھی دور ہونا چاہیے اور ملک کے اندر میں امیر اور غریب کی کھائی بھی پٹنی چاہیے تھی۔ رنگ اور نسل کی بنیاد پر ہو رہے امتیاز سے بھی وہ افسردہ تھے۔ ان کو یہ بات بخوبی معلوم تھی کہ سیاہ فام انسان کو سفید فام سماج کمتر سمجھا ہے۔ اس لیے انہوں نے رنگ کی بنیاد پر ہو رہی تفریق کے خلاف بھی آواز بلند کی۔
ڈاکٹر لوہیا عورتوں کو اپنی مرضی کے ساتھ جینے کے حقوق کے بھی حامی تھے۔ وہ جہیز کے بھی سخت مخالف تھے ۔ ان کے نزدیک مہابھارت کی ایک اہم کردار دروپدی کا بڑا مقام تھاکیونکہ وہ بڑی بے خوف اور بہادر، ذی علم خاتون تھی۔ اسی طرح دہلی سلطنت کے دور میں حکمرانی کرنے والی رضیہ سلطانہ ڈاکٹر لوہیا کی نظرو ں میں پسندیدہ شخصیت تھی۔ بین الاقوامی امور میں بھی ڈاکٹر لوہیا کی بڑی دلچسپی تھی اور وہ دنیا کے مختلف ملکوں میں جا کر عالمی امن اور عالمی حکومت کے نظریہ کو فروغ دیتے تھے۔ ان کے نزدیک، قومی ریاست کی تنگ نظری سے آزاد ہوئے بغیر انسانیت کا بھلا نہیں ہونے والا ہے۔
ڈاکٹر لوہیا اور بھگوا طاقتیں کے بیچ میں کوئی مشابہت نہیں ہے۔ بھگوا جماعت سماج کے اندر میں ذات پات کو بنائے رکھنا چاہتی ہے اور اعلیٰ ذات کی بالادستی کو بچانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ جہاں بھگوا طاقتیں کو سرمایہ داروں کی خدمت کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے ، وہیں ڈاکٹر لوہیا پوری زندگی سرمایہ داروں کے خلاف لڑتے رہیں۔ ڈاکٹر لوہیا کا نہ تو کوئی مکان تھا اور نہ کوئی بینک کھاتہ۔ انہوں نے پوری زندگی محکوموں کی خدمت میں لگا دی۔ خاص کر ان کی وجہ سے ہی پچھڑے سماج کو ان کا حق مل پایا ، جسے دینے کے لیے تب کی کانگریس سرکار بھی تیار نہیں تھی۔ دلت، آدی واسی، پچھڑا، خواتین اور اقلیتی سماج کے اندر موجود کمزور لوگوں کے لیے انہوں نے60 فیصد ریزویشن کی بات کی تھی اور ان کی سوشلسٹ پارٹی نےاس کے لیے لڑائی بھی لڑی ۔ڈاکٹر لوہیا شخصی آزادی اور سرکار کی آمرانہ پولیسی کے خلاف مرتے دم تک سٹرکوں پر لٹتے رہیں اور جیل جاتے رہیں۔ آج وہ سب کچھ ہو رہا ہے جن کے خلاف ڈاکٹر لوہیا تھے۔ بھگوا راج میں حالات اور بھی خراب ہو گئیں ہیں۔ آج ملک کو ڈاکٹر لوہیا کی مزاحمت والی وراثت کا بے صبری سے انتظار ہے۔
(مضمون نگار جے این یو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں )