تحریر:ایڈووکیٹ ابوبکرسباق سبحانی
حالیہ دنوں میں احمدآباد گجرات کی ایک عدالت نے سیریل بلاسٹ کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے 38 ملزمین کو پھانسی کی سزا سنائی ہے، ان بلاسٹ کے دوران تقریبا 56 افراد جان بحق ہوئے تھے جب کہ 200 سے زائد افراد شدید زخمی ہوئے تھے، لگ بھگ 15 سال کے طویل عرصے کے بعد یہ فیصلہ آیا، اس فیصلے کے بعد کئی سوال موضوع بحث رہے جن میں ایک اہم موضوع ہمارے ملک میں پھانسی کی سزا اور عالمی سطح پر پھانسی یا موت کی سزا کو لے کر ہوئے بدلاو کے تئیں رہا۔ دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک اپنے دستور و قوانین میں تبدیلی کرکے موت کی سزا خصوصا پھانسی کی سزا کو مکمل طور سے ختم کرچکے ہیں۔ لیکن کیا ہمارے ملک میں پھانسی یا موت کی سزا ہی انصاف کا واحد طریقہ ہے؟ وہیں دوسری طرف ملک کے ایک مخصوص اقلیتی طبقے کا خیال ہے کہ ہمارے ملک میں پھانسی کی سزا صرف اسی ایک اقلیتی طبقے کے لئے ہی مختص ہے۔
1980 میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے “بچن سنگھ بنام اسٹیٹ آف پنجاب” کا تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ سزائے موت صرف اور صرف بہت ہی مخصوص مقدمات (Rarest of rare cases) میں ہی دی جاسکتی ہے، لیکن چونکہ عدالتوں کو اپنی سمجھ اور صوابدید کے لحاظ سے تشریح و توضیح کا اختیار حاصل ہے اس وجہ سے اس کی کوئی اصولی تعریف موجود نہیں ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد رحم کرنے کا اختیار صرف صدر جمہوریہ کے پاس ہوتا ہے لیکن ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ ہمارے ملک کے صدرجمہوریہ “مرسی پٹیشن” کو زیر التوا رکھنے کی پالیسی پر ہی عمل کرتے رہے ہیں۔
عالمی سطح پر پھانسی کی سزا یا سزائے موت پر ہمارے ملک کا نظریہ ابھی تک دگرگوں رہا ہے، اقوام متحدہ نے عالمی کنوینشن برائے شہری و سیاسی حقوق کو پیش کیا تو دیگر ممالک کے ساتھ بھارت بھی اس کنونشن کے مطابق اپنے ملک سے پھانسی کی سزا کو ختم کرنے اور اس سمت میں پیش رفت کرنے کے لئے اصولا پابند تھا لیکن اس کو ریٹیفائی کرنے کے بجائے بعد میں چین اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی اس ریزولوشن کی مخالفت میں ووٹ دیا جس کے تحت سزائے موت پر کلی پابندی کی تجویز پیش کی گئی تھی۔
اٹھارہویں صدی عیسوی کے اواخر میں سزائے موت کے خلاف یوروپ میں پہلی بار تحریک شروع ہوتی ہے، اس سے پہلے سزائے موت کسی بھی جرم کی پاداش میں سنادی جاتی تھی حتی کہ چوری کے الزام میں بھی سزائے موت کی سزا سنائے جانے کے واقعات موجود ہیں۔ 1794 میں امریکہ کی ایک ریاست پینیسلوانیہ نے پہلی بار سزائے موت کو لے کر سخت پالیسی بنائی جس کے مطابق صرف بہیمانہ قتل کے واقعات میں ہی سزائے موت دی جاسکے گی۔
نصف صدی کا عرصہ بیت جانے کے بعد انیسویں صدی کے دوران بھی بہت سے ممالک سزائے موت کے قوانین سے دست بردار ہوتے رہے، 1846 میں امریکہ کی ایک دوسری ریاست میچیگان نے سزائے موت کو قتل کے مقدمات میں بھی کلی طور پر ختم کرنے کا فیصلہ لیا۔ 1863 میں وینیزولا تاریخ کا پہلا ملک ہے جس نے قتل کے ساتھ دیگر خطرناک نوعیت کے الزامات میں بھی پھانسی کی سزا کو پوری طرح سے ختم کیا، ان الزامات میں ملک سے غداری اور جنگی جرائم بھی شامل ہیں۔ یوروپین ممالک میں سین میرینو پہلا یوروپین ملک ہے جس نے 1865 میں پھانسی کی سزا کو قانونی طور پر پوری طرح سے ختم کرنے کا اعلان کیا۔
بیسویں صدی کے دوران سیاسی و سماجی بدلاو زیادہ رہے، نیدرلینڈ، ناروے، سویڈن، ڈنمارک اور اٹلی نے صدی کے اوائل میں ہی سزائے موت اپنے ممالک میں ختم کردی تھیں، مسولینی نے اپنے دور میں دوبارہ اٹلی میں پھانسی کی سزا کو شروع کردیا تھا۔ 1960 کی دہائی میں تقریبا 25 دیگر ممالک نے پھانسی کی سزا کے ساتھ ہی سزائے موت کو ختم کردیا تھا، جب کہ ان میں سے کچھ ممالک نے “ملک سے غداری” کی سزا کے طور پر پھانسی یا سزائے موت کو باقی رکھا تھا۔ انگلینڈ نے 1965 میں ہی قتل کی سزا کے طور پر تو پھانسی کو ختم کردیا تھا تاہم ملک سے غداری، جنگی جرائم جیسے جرائم کی سزا میں پھانسی کو برقرار رکھا گیا تھا جس کو 1998 میں پوری طرح ختم کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔
پھانسی کی سزا کے خلاف آج پوری دنیا میں ایک بڑی تحریک کام کررہی ہے، حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والی ملکی و عالمی تنظیمیں پھانسی کی سزا کو حقوق انسانی کے خلاف تسلیم کرتے ہیں، چونکہ یہ سزا بہت زیادہ اذیتناک ہوتی ہے اس وجہ سے اس کو غیر انسانی بھی کہا جاتا ہے۔ 1971 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک رزولوشن پاس کیا کہ “حق برائے زندگی کی ضمانت کو پوری طرح سے یقینی بنانے کے لئے یونیورسل ڈکلیریشن آف ہیومن رائٹس کے ذریعے ان جرائم کو مزید محدود کیا جاتا ہے جن کی سزا کے طور پر پھانسی کی اجازت ہوگی، ہمارا ارادہ و مقصد ہے کہ ہم پھانسی کی سزا کو پوری طرح سے ختم کرنے کی کوشش کریں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس ریزولوشن کی 1977 میں ایک بار پھر توثیق کی۔
1983 میں یوروپین یونین نے حقوق انسانی پر کنونشن کیا، نیز 1989 میں انٹرنیشنل کووننٹ برائے شہری و سیاسی حقوق کا انعقاد ہوا، جس کے تحت تمام ہی متفقہ ممالک سے یہ معاہدہ لیا گیا کہ وہ اپنے ممالک میں کسی بھی مجرم کو پھانسی کے تخت پر نہیں چڑھائیں گے، یعنی عملا اس پر پابندی لگانے کو لے کر تجویز پاس کی گئیں۔ کونسل آف یوروپ نے 1994 میں اور پھر یوروپین یونین نے 1998 میں اپنی ممبرشپ کے لئے یہ شرط بنادی کہ اگر کسی ملک میں ان کی تنظیمی ممبرشپ لینی ہو تو پہلے وہ اپنے ملک میں پھانسی کی سزا کوعملی طور روکیں گے نیز اس کے خاتمے کے لئے سنجیدہ کوشش کریں گے۔ ان شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے ہی چیک رپبلک، ہنگری، رومانیہ، سلوواکیہ اور سلووانیہ نے ممبرشپ حاصل کی کہ وہ سزائے موت کو اپنے ممالک میں ختم کریں گے۔ 1990 کی دہائی میں انگولا، جبوتی، نمیبیا جیسے متعدد افریقی ممالک نے بھی پھانسی کی سزا کو اپنے ملک میں ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
آج اکثر و بیشتر ممالک پھانسی یا موت کی سزا کو ختم کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں، ایران، سنگاپور، ملیشیا جیسے کچھ ممالک میں ہی پھانسی کی سزا باقی رکھی گئی ہیں جن میں اکثریت مسلم ممالک کی ہیں، ہر سماج یا ملک کے اپنے سوچنے یا سمجھنے اور فیصلہ کرنے کے زاویے ہوتے ہیں، کہیں پر حقوق انسانی کے اصول و پالیسی کی بنیاد پر پھانسی کو ختم کیا جاتا ہے اور کسی دیگر ملک میں مذہبی یا اخلاقی بنیاد پر پھانسی کی سزا کو باقی رکھنے کے لئے دلیل دی جاسکتی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ مسئلہ زیادہ پیچیدہ ہوجاتا ہے جس کی وجہ یا سبب عدلیہ پر سیاسی دباو کے الزامات نیز فرقہ واریت کے بڑھتے واقعات ہیں۔ اقلیتی طبقے کے خلاف قانون کا دوہرا معیار جیسے الزامات یا حادثے ہیں، سیاسی پارٹیاں صرف الزامات کی بنیاد پر ماحول اس قدر نفرت آمیز کردیتے ہیں کہ انصاف ملنے کی امید ہی مندمل ہوجاتی ہے، یقینا پندرہ سال تک جیل کی کال کوٹھریوں میں مقدمات کے فیصلے کا انتظار کرنا بذات خود عمر قید کی مکمل سزا کاٹ لینا ہے، اور پندرہ سال کی جیل کاٹنے کے بعد پھانسی ایک عجیب فیصلہ محسوس ہوتا ہے، وہیں دوسری جانب تقریبا صرف ایک ہی طبقے یا مذہبی اقلیت سے جڑے لوگوں کو پھانسی دینا بھی سوالوں کی زد میں رہاہے۔ اگر نظام انصاف پر سماج کے ایک بڑے طبقے کو بھروسہ نا ہو تو یقینا یہ سماج اور نظام انصاف دونوں کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے اور اس بھروسے کا قائم کرنے یا قائم رکھنے کے لئے سماج و حکومت کے تمام اداروں کو سنجیدہ کوششیں کرنی چاہیے ہیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)