نئی دہلی، 21 اکتوبر: جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے سپریم کورٹ کے اس عبوری حکم کا خیرمقدم کیا ہے جس میں نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کی جانب سے مدارس کی تسلیم شدگی ختم کرنے اور آزاد مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو اسکولوں میں داخل کرنے کی گائیڈلائن پر روک لگادی گئی ہے۔ مولانا مدنی نے اس فیصلے کو "ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بتایا ہے ، لیکن ساتھ ہی کہا کہ ہماری جدوجہد ابھی طویل ہے۔
مولانا مدنی نے این سی پی سی آر کے چیئرمین پریانک قانون گو کے حالیہ بیانات اور اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے حقائق سے آنکھیں موند لی ہیں ۔ وہ ایک طرف اسلامی کتابوں کے نصاب پر اعتراض کرتے ہیں، جسے کچھ لوگ اپنے خیال میں درست بھی سمجھتے ہوں گے ، حالاں کہ سچائی اس کے برعکس ہے ۔ اس موضوع پر اگر وہ بیٹھ کر باتیں کریں گے تو ضرور مطمئن ہو جائیں گے ۔ لیکن ان کا رویہ جارحانہ اور یک طرفہ محسوس ہوتا ہے ۔ لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ ہماری جدید تعلیم کی کوششوں پر کیوں نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند جدید تعلیم کو فروغ دینے کے لیے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ (این آئی او ایس) سے منسلک جمعیۃ اسٹڈی سینٹر چلا رہی ہے، جہاں پندرہ ہزار سے زائد طلبہ وطالبات کو روایتی دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید مضامین کی تعلیم بھی دی جا رہی ہے۔ ہماری کوشش سے یہ بچے دسویں اور بارہویں کررہے ہیں ۔ لیکن این سی پی سی آر کے چیئرمین ہماری ان کوششوں کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ مولانا مدنی نے اس بات پر زور دیا کہ مدارس نہ صرف ثقافتی ورثے کے تحفظ میں بلکہ معاشرتی تعلیمی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
مولانا مدنی نے مزید کہا کہ دینی مدارس ملک کے آئین کے مطابق چلتے ہیں۔ گزشتہ پانچ سو سالوں سے اس ملک میں مدارس کا نظام جاری ہے، ان مدارس کے فارغین نے ہر دور میں ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان مدارس کی قربانیوں سے ملک آزاد ہو ا تو ملک کے آئین نے دینی مدارس کو قانونی تحفظ فراہم کی۔ اب ایک شخص اٹھ کھڑا ہوا ہے، جو ان تمام حصول یابیوں پر مٹی ڈال دینا چاہتا ہے جو ملک نے دہائیوں میں حاصل کیا ہے۔مولانا مدنی نے اس عزم ظاہر کیا کہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے اور ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔