نئی دہلی :
دی کشمیر فائلز فلم کو دیکھنے کے دوران اوراس کے بعد جو مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکتی دکھائی دے رہی ہے، اس پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔ شاید فلم کا مقصد بھی یہی ہے۔ لیکن فلم یہ کام کیسے اور کیوں کرتی ہے اس پر جانےسے پہلے ایک چیز بالکل واضح کر دیتے ہیں ۔
1990 میں کشمیری پنڈتوں نے جو دکھ جھیلا، انہیں جو تکلیف پہنچی، جس تشدد کی وجہ سے انہیں کشمیر سے بھاگنا پڑا، اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن دی کشمیر فائلز یہ کام مسلمانوں، صحافیوں اور دیگر کے خلاف نفرت بڑھانے کے منصوبے کے ساتھ کرتی ہے ۔فلم دیکھنے کے بعد کشمیری پنڈتوں کے لیے ہمدردی کم اور ’دوسروں‘ کے خلاف نفرت زیادہ بڑھتی ہے ۔
فلم ایک لمحے میں تمام تنقیدوں کی نفی کر دیتی ہے
مثال کے طور پر، جو کوئی بھی کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹنے کے بعد انٹرنیٹ کی بندکئے جانے یا لوگو ں کو غلط طریقے سے حراست میں لینے کی تنقید کرتا ہے ،اسے اس طرح دکھایا جاتا ہے جیسے کہ یا تو وہ دہشت گرد ہیں یا بھارت کے خلاف کام کرنے والے دہشت گردوں کے ہمدرد ہیں ۔
اور کم از کم پروپیگنڈے کے نقطہ نظر سے اسے ہدایت کار وویک اگنی ہوتری کا فلم میں ’ماسٹر اسٹروک‘ کہا جا سکتا ہے۔ فلم میں ولن دہشت گرد بٹا کراٹے اور پروفیسر رادھیکا مینن کشمیر کے لوگوں ، جو کہ ہندوستانی بھی ہے ،کہ جائز خدشات پر بات کرتے ہیں ۔
لیکن، کیونکہ یہ دونوں ولن ہیں جنہیں ہندوستان کے خلاف کام کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور صرف انہیں ان مسائل پر بات کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ اگنی ہوتری ناظرین کو بہت واضح پیغام دیتے ہیں۔
وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جو بھی ان مسائل پر بات کر رہا ہے وہ پاکستان کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کے ساتھ مل کر کام کرنے والا بھارت مخالف ایجنٹ ہے۔ اس میں کئی مسائل شامل ہیں ،جیسے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد عام کشمیریوں کی حالت زار، کئی دہائیوں سے اس علاقے سے لوگوں کا غائب ہونا، جمہوری حقوق کی خلاف ورزی، بی جے پی کی مخالفت کرنے والے رہنماؤں کی نظربندی جیسے کئی مسائل شامل ہیں۔
فلم سے باریکیاں غائب ہیں
باریکیوں کے ساتھ ساتھ اگنی ہوتری کی فلم میں کشمیر سے متعلق جائز اختلاف، اختلاف اور تنقید کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
یہ فلم عام لوگوں کو تشدد پر اکساتی ہے۔یہ فلم کھلے عام ان لوگوں کے خلاف تشدد پر اکساتی ہے جن سے آپ متفق نہیں ہیں۔
صحافیوں پر حملے کے لیے اکسانا
فلم دی کشمیر فائلز کے ایک سین میں صحافیوں پر حملہ کرنے کے لیے اشتعال انگیز ڈائیلاگ ہے۔ اس سین میں فلم میں ایک سمجھدار اور سنجیدہ شخص کے طور پر دکھایا گیا ایک کردار بڑے فخر سے اعلان کرتا ہے کہ جس دن اس ملک کے لوگ سمجھدار ہو جائیں گے وہ صحافیوں کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے اور سب کے سامنے ان کی پٹائی کریں گے ۔
کیا یہ تشدد پر اکسانا نہیں؟
اگر کوئی شخص کسی سیاسی پروگرام میں یا کسی ہجوم کے سامنے کھلے عام یہ بیان دیتا ہے تو اسے غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔ یہ آئی پی سی کی دفعہ 505 کی خلاف ورزی ہے، جس کے مطابق یہ اشتعال انگیز تقریر ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ وویک اگنی ہوتری اپنی فلم کے ذریعے صحافت اور میڈیا کی برائیوں پر تنقید کرنا چاہتے ہیں، لیکن سرعام صحافیوں کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور مارنے کی بات کرتے ہیں! یہ کیسی تنقید ہے؟
فلم میں تشدد کو فروغ دینے کا ایک ایسا ہی منظر اس وقت آتا ہے جب ایک سابق آئی اے ایس افسر حقیقی انصاف کی بات کرتے ہوئے بندوق اٹھا کر ایک کشمیری دہشت گرد کو مارڈالنے کا خواب دیکھتا ہے۔
فلم کا مرکزی کردار، ایک عام شہری، انصاف کے حصول کے لیے ہتھیار اٹھانے کے آپشن پر غور کرتا ہے۔ اس کا ہتھیار اٹھانے کا اختیار اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے وہ تشدد کے راستے پر چلے بغیر کسی گناہ کا کفارہ ادا کرنے جا رہا ہو،کفارہ ایک عربی لفظ ہے جو کسی غلطی کو سدھارنے یا کسی کو دیے گئے زخموں پر مرہم لگانے کے عمل طور پر استعمال کیا جاتا ہے ، مگر یہاں تو اس کی تعریف ہی بدلی جارہی ہے اور فلم ایسے مناظر کے ذریعہ شہریوں کے آگے تشدد کو ہی کفارہ کے طور پر استعمال کرتی ہے اور ہتھیار اٹھا کر تشدد کرنے کو ’ جسٹس‘ بتاتی ہے ۔
یہ فلم مسلم مخالف خوف کو ہوا دیتی ہے
فلم میں ایک ڈائیلاگ ہے جس سے ہندوستانی عوام میں خوف پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر میں کیا ہوا تھا؟ یہ سمجھنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا کہ یہ فلم کشمیری مسلم دہشت گردوں کا پورے ملک پر قبضہ کرنے کا ذکر نہیں کررہی ہے ، بلکہ ہندتوا کی سازشی تھیوری کو پھیلا رہی ہے کہ بھارت میںمسلمان پورے ملک کو مسلم اکثریت ملک بنانا چاہتے ہیں ۔
فلم میں ایک ڈائیلاگ ہے کہ کس طرح تمام کشمیری پہلے ہندو تھے پھر مسلمانوں نے انہیں جبراً مذہب تبدیل کرانا شروع کر دیا۔ فلم کے آخر میں ایک تقریر ہے جس میں افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ کس طرح کشمیر پہلے تہذیب کا گہوارہ تھا، لیکن اب حالات مزید خراب ہو چکے ہیں۔
فلم اشارہ کرتی ہے کہ کشمیر ایک مسلم اکثریتی علاقہ بن گیا اور کشمیر کی اپنی تہذیب بگڑ گئی ، کیونکہ یہ علاقہ مسلم اکثریتی ہو گیا۔
(بشکریہ: دی کوئنٹ ہندی)