تحریر: اے رحمٰن
آر ایس ایس کے بنیادی ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لئے بی جے پی حکومت نے جتنے سیاسی حربے اختیار کئے ہیں ان میں سب سے خطرناک ہے مسلم دشمن ’پروپیگنڈا‘۔یہ لفظ اطالوی زبان سے انگریزی میں آیا اور اب انگریزی لغات میں اس کے معنی ہیں ’جھوٹا یا مبالغہ آمیز بیان جو عام طور پر بد نیتی پر مبنی اور مفوضہ یا سیاسی مفاد کے لئے استعمال کیا جائے‘۔اپنے اصل لاطینی مصدر میں اس کے معنی تھے تبلیغ اور سترہویں صدی میں اسے کیتھولک عیسائیت کی تبلیغ کے معنی میں ہی استعمال کیا گیا ۔لیکن انیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے پروپگنڈا نے اپنا سیاسی لباس زیبِ تن کر لیا اور یہ ایک منفی عمل کی غمّازی کرنے لگا۔ایسا کوئی ملک یا سیاسی اکائی نہیں جو پروپگنڈے کا استعمال نہ کرتی ہو لیکن اس کا منفی اور تباہ کن استعمال فاشسٹوں خصوصاً مسولینی اور ہٹلر نے کیا۔ہٹلر نے تو 1933میں جرمنی کا چانسلر بنتے ہی ایک ’پروپگنڈا وزارت‘ قائم کر دی جس کا ڈائریکٹر اس نے اپنے قریب ترین معتمد جوزف گوئبلز کو مقررّ کیا۔ہٹلر کے ذہن میں پروپگنڈے کا جو تصوّر تھا اس کی کامیابی کے لئے اس نے نے اپنی ہی ایک اصطلاح ایجاد کی جسے جرمن میںGrosse Luge یعنی بڑا جھوٹ کہا گیا۔اس کا کہنا تھا کہ اگر کوئی بہت بڑا جھوٹ بولا جائے اور بار بار بولا جائے تو عوام اس پر یقین کر لیتے ہیں ۔اس کی دو نفسیاتی وجوہات ہیں۔ایک تو یہ کہ عام خیال کے مطابق بہت بڑا جھوٹ بولنے کی جسارت کم ہی لوگ کر سکتے ہیں (چہ جائیکہ فرماں روا یا حکومت) اور دوسرے یہ کہ اگر کوئی بات بار بار اور مستقلاً کان میں پڑتی رہے تو وہ خود بخود یعنی لا شعوری طور پر انسان کے ایقان کا حصّہ بن جاتی ہے۔بیشتر غیر مسلم مورّخ ،سیاسی مبصّر اور صحافی اس بات پر متفّق ہیں کہ آر ایس ایس نے ابتدا سے ہی نہ صرف پروپگنڈے کو سیاسی حربے کے طور پر اپنا لیا تھا بلکہ ہٹلر کی ’بڑے جھوٹ‘ والی تکنیک کو ہی اپنے پروپگنڈے کی بنیاد بنایا۔۱۹۲۵ میں اپنے قیام کے فوراً بعد ہی آر ایس ایس نے اپنی پروپگنڈا مشینری تشکیل دینا شروع کر دی اور اس وقت سے آج تک اس مشینری نے نہایت منظّم طریقے سے ہندو راشٹر کے مقصد کے تحت اختراع کئے گئے کئی بڑے جھوٹ اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر عام ہندوؤں کے ذہن میں کسی نہ کسی حد تک داخل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔کسی بھی بڑے جھوٹ کے لئے تاریخ کا ابطال ضروری ہے (جیسا کہ ہٹلر نے یہودیوں کے خلاف کیا) اور اس کی ابتدا ساورکر نے ہی کر دی تھی۔اس نے اپنی کتاب ’’ تاریخ ِ ہند کے چھ عہد ہائے زرّیں‘‘(جس میں اشوکِ اعظم کے عہد کا نام بھی نہیں لیا گیا کیونکہ اس نے ہندو ازم سے بغاوت کر کے بدھ ازم اختیار کر لیا تھا) میں ساورکر نے مسلمانوں کو ہندوستان پر ایسے شقی القلب اور سفّاک حملہ آوروں کی شکل میں پیش کیا ہے جنہوں نے ہندو مذہب اور ثقافت کو برباد کرنے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑی، وسیع پیمانے پر ہندو عورتوں کی عصمت دری کی،انہیں اپنی داشتائیں بنا کر رکھا اور اگر ان سے شادیاں بھی کیں تو محض اس لئے کہ ان سے بچے پیدا کر کے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کر سکیں۔ساورکر نے شوا جی کو بھی ولن کے طور پر پیش کیا ہے اس بنا پر کہ شوا جی نے جہاں بھی مسلمانوں پر فتح حاصل کی وہاں ہاتھ آئی مسلم عورتوں کی عصمت دری کئے بغیر چھوڑ دیا۔ایک امریکی مورّخ لکھتا ہے کہ ساورکر پہلا نظریہ ساز ہے جس نے ریپ (rape ) کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی تلقین کی۔لیکن آر ایس ایس اور بی جے پی نے پرو پگنڈے کے ذریعے ساورکر کے خیالات اور نظریات کی جس طور تشہیرکی اس نے کم از کم عام ہندو کے ذہن کو مسلمانوں سے متنفّر کر دیاکیونکہ عام آدمی کے پاس نہ اتنا وقت ہوتا ہے نہ صلاحیت کہ وہ تاریخی حقائق کی بعد تحقیق اپنے طور پر تصدیق کر سکے۔
رائے عامّہ کو متاثر کرنے یا عام آدمی کی عمومی فکر پر خاطر خواہ طریقے سے اثر انداز ہونے کے لئے فلم سب سے موثر ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ اخبار یا کتاب میں چھپے ہوئے لفظ سے کہیں زیادہ فلم کے پردے پر دکھایا ہوا منظر تماش بین کے ذہن پر گہرائی سے نقش ہوتا ہے اور ایک عام ذہن اسے بلا حیل وحجت سچائی کے طور پر قبول کرتا ہے۔آر ایس ایس کا عزم ہے کہ اسلام اور مسلم دشمن تحریک میں کوئی دقیقہ یا حیلہ فرو گذاشت نہ ہو لہذٰا فلم جیسے حربے کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔حال ہی میں ریلیز ہوئی فلم دی کشمیر فائلس ایک اتنی خطرناک جھوٹ کی پوٹلی ہے جس کے کھلتے ہی اس میں بند دروغ بیانی کے سانپوں نے اپنی زہر افشانی سے عام ہندوذہن کو اس شدت سے متاثر کیا کہ پورے ملک میں ایک ہاؤ ہو اور وا ویلا کا ماحول پیدا ہو گیا۔اس میں شبہ نہیں کہ خاصی تعداد میں با ضمیر اور ایماندار کشمیری پنڈت چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ان کے مسلم دوستوں اور پڑوسیوں نے کشمیر سے باہر نکلنے میں ان کی اخلاقی، مالی اور دیگر طریقوں سے مدد کی نیز یہ کہ کشمیر میں دہشت گردی کے لئے ذمّہ دار پاکستان ہے نہ کہ کشمیری اور بقیہ ہندوستان کے مسلمان، لیکن نفرت کے نقار خانے میں ان کا احتجاج صدائے طوطی ہی ثابت ہو رہا ہے۔
اس فلم کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے تئیں عام ہندو ذہن میں تنفر پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں اس واسطے اسے بڑی عیّار منصوبہ بندی سے بنایا گیا ہے۔کہانی اور منظر نامہ اس مرکزی خیال یا تھیم پر مبنی ہے کہ وادی میں تنازعہ کشمیری پنڈتوں اور کشمیری مسلمانوں کے درمیان تھا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی اکثریت نے پنڈتوں کی اقلیت کو وہاں سے مار کے بھگا دیا۔فلم کی ابتدا ایسے منظر سے ہوتی ہے جس میں چند بچے کرکٹ کھیل رہے ہیں اور ایک کشمیری پنڈت (انوپم کھیر) شو راتری کی تیاری میں مصروف ہے۔ منظر یہ تاثر بھی دیتا ہے کہ ماحول بہت خراب اور مخدوش ہے لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کیوں خراب یا مخدوش ہے لیکن یہ طے کر دیا گیا ہے کہ صرف کشمیری پنڈتوں کے لئے مخدوش ہے۔منظر نامے کی گمراہ کن عیاری کو اس مکالمے سے سمجھئے : ’’ جھوٹی خبر دکھانا اتنا بڑا گناہ نہیں ہے جتنا سچّی خبر چھپانا‘‘۔اس مکالمے سے ناظرین کی ذہن سازی کر دی گئی ہے تاکہ آگے وہ جو کچھ بھی دیکھیں اسے صداقت پر محمول سمجھیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پوری فلم میں نہ صرف سچے واقعات اور خبروں کو چھپایا گیا ہے بلکہ فرضی اور جعلی واقعات کی نمائش سے تاریخ کو مکمل طور سے مسخ کر دیا گیا ہے۔انگریزی محاورہ ہے half truths are more pernicious than outright lies یعنی ادھوری صداقت مکمل جھوٹ سے زیادہ ضرر رساں ہوتی ہے۔ تقریباً ڈھائی گھنٹے کی پوری فلم ادھوری صداقتوں سے مملو جعلی واقعات کے بیانیہ سے لبریز ہے۔مرے پہ سو درّے لگاتے ہوئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں فلم کے پروڈیوسر ڈائریکٹر وویک اگنی ہوتری نے بڑے سرکش انداز میں بیان دیا ہے ’’ میں حقائق (facts ) میں یقین نہیں رکھتا‘‘۔ اس کا یہ بیان ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ فلم ایک بڑے جھوٹ پر مبنی ہے۔لیکن اس شخص کی سرکشی اس برتے پر ہے کہ خود وزیرِ اعظم مودی نے (غالباً فلم دیکھے بغیر ہی) اسے اور اس کی ٹیم کو اپنے گھر بلا کر پذیرائی کی اور معترضین کے احتجاج پر یہ تبصرہ بھی کر ڈالا : ’’ لوگ سچ سننا نہیں چاہتے۔اگر یہ جھوٹ ہے تو وہ اپنی فلم بنا لیں‘‘۔لہذٰا فلم خواہ بنے یا نہ بنے ، اس فلم کے شیطانی مشمولات کا نکتہ در نکتہ ابطال اور تاریخی طور سے مستند حقائق و واقعات کو سامنے لانا نہایت ضروری ہے۔
اولاً تو یہی دیکھیئے کہ جموں کشمیر پر افغان حکمراں رہے،مغل رہے، سکھ رہے ،ڈوگرا رہے، انگریز رہے اور ان تمام ادوار میں وہاں مسلمانوں کی تعداد نوّے فیصد سے زائد یعنی تقریباً پچانوے اور ستانوے فیصد کے آس پاس رہی۔لیکن کبھی کسی کشمیری پنڈت کو گزند نہیں پہنچا۔پھر 1947 میں ملک تقسیم ہوا۔لاکھوں مسلمان ہجرت کر کے پاکستان گئے اور وہاں سے ہندو ادھر آئے اور اس دو طرفہ ہجرت میں تاریخ کا ہولناک ترین فساد ہوا جس میں لاکھوں بے گناہ مارے گئے۔لیکن کسی ایک کشمیری پنڈت کا قتل نہیں ہوا۔کشمیر میں تو کوئی ہندو مسلم فساد تک نہیں ہوا۔یہی نہیں 1947 کے بعد1990تک بھی کسی کشمیری پنڈت کو نہ کوئی نقصان پہنچا اور نہ کسی جانب سے خطرہ محسوس ہوا۔۱۹۹۰ میں جو کچھ ہوا اس کے اسباب اورتواریخ (chronology ) کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)