تحریر: راکیش کمار سنہا
میں منفی سوچ سے دور رہنے کی پوری کوشش کر رہا ہوں لیکن رہا نہیں جارہاہے ۔ بی جے پی نے ایک فلم کو ڈھال بنایا ہے اور ملک میں جو کچھ ہو تا ہوا نظر آرہا ہے اس پر میرا ضمیر خاموش رہنے کی اجازت نہیں دیتا، کیونکہ میں کھلے عام کچھ مقبول روایات کو ٹوٹتے دیکھ رہا ہوں، ایسے میں تاریخ کل ان غیر جانبداروں سے بھی سوال کرے گی جو یہ سب کچھ ہوتا دیکھ کر بھی خاموش ہیں۔
ماضی کو دغدار کرنے والی ہماری میں کئی واقعات ہوئے ہیں تو کیابرسوں بعد سچ دکھانے کے نام پر (سچ کہیں تو ایجنڈہ کے تحت) پوری چھوٹ دی جائے ؟
یہ سنٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن یا سنسر بورڈ کی ذمہ داری رہی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ فلم ساز ایسی کوئی چیز نہ دکھائیں جو قابل نفرت ہو اور کمیونٹیز کے درمیان دشمنی پیدا کرے، لیکن اس فلم کو لگتا ہے کہ سنسر بورڈ نے اسے آنکھوں پر پٹی باندھ کر پاس کیا ہے۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ فلم بنانے والے اور اس میں کام کرنے والے حکمران جماعت کے قریب ہیں یا یہ فلم کسی خاص مقصد کے لیے بنائی گئی ہے؟
کیا 1947 میں پاکستان سے بھاگنے والے ہندو سکھوں اور ہندوستان سے بھاگنے والے مسلمانوں کو کم نقصان اٹھانا پڑا، کیا ان مناظر کو بھی بڑی اسکرین پر اسی ہولناک درندگی کے ساتھ پیش کیا جائے؟
1984 اور 2002 بھی ایسے ہی ہماری تاریخ کے سیاہ اوراق ہیں۔ کیا ان زخموں کو بھی سنیما کی آزادی کے نام پر کوریدا جالے؟ صرف سچ دکھانے کے نام پر؟ یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے کہ فلم ’ پرجانیہ ‘ پر کس بنیاد پر گجرات میں پابندی لگائی گئی تھی ۔
جس سینما ہال میں یہ فلم دکھائی جا رہی ہے ان کے اندر اور باہر زہربھرے نعرے لگائے جارہے ہیں، تقاریر ہو رہی ہیں لیکن انہیں روکنے کے لیے کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھ رہی۔ نہ قانون بول رہا ہے نہ عدالت۔
جن ریاستوں میں مخصوص پارٹیوں کی حکومتیں ہیں وہاں اس فلم کو ٹیکس فری بنا کر اس فلم کو مزید فروغ دیا جا رہا ہے۔ سینما کی دنیا میں اپنے پیادوں کو آگے بڑھا کر انتخابی بساط پر یہ خطرناک کھیل کیوں کھیلا جا رہا ہے؟ 2024 قریب آ رہا ہےاس لئے ؟
(بشکریہ: ستیہ ہندی )