نئی دہلی25 اکتوبر:: جمعیۃ علما ء گجرات اور اولیائے دین کمیٹی کی عرضی) ایس ایل پی (سی) نمبر 24515/2024)پر آج سپریم کورٹ میں سومناتھ میں منہدم کردہ 9 مساجد اور درگاہوں کے انہدام پر اہم سماعت ہوئی۔ عدالت میں اس معاملے کی نزاکت محسوس کی گئی کیوں کہ موجودہ عہد میں ایک ساتھ اتنی عبادت گاہیں کہیں نہیں توڑی گئیں ۔ سپریم کورٹ نے حکومتِ گجرات کی یقین دہانی کو ریکارڈ کرتے ہوئے کہا کہ اگلی سماعت تک یہ زمین حکومت کے پاس رہے گی اور تیسرے فریق کو الاٹ نہیں کی جائے گی۔
جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کے وی ویشواناتھن پر مشتمل بنچ نے اس مقدمہ کی سماعت کی ۔ اس وقت سپریم کورٹ میں سناٹا چھاگیا جب کپل سبل اور دیگر وکلاء نے عدالت کے سامنے دلائل پیش کیے کہ ان قدیم عبادت گاہوں کو بلاوجہ نشانہ بنایا گیا ہےجب کہ دوسری طرف وہاں موجودمندر کو چھوڑ دیا گیا۔ کپل سبل نے اس کارروائی کو عصبیت پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ مساجد اور درگاہوں کے خلاف یک طرفہ کارروائی کی گئی ہے جو انتہائی شرمناک ہے۔دوسرے سینئر وکیل حذیفہ احمدی نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل کے پاس 1903 میں کی دستاویزات موجود ہیں جو اس زمین کے وقف ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ انہوں نے آگاہ کیا کہ ان قدیم عبادت گاہوں کو راتوں رات بغیر پیشگی اطلاع کے منہدم کیا گیا، جو قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
کپل سبل کے دلائل پر تبصرہ کرتے ہوئے جسٹس گوائی نے زبانی طور پر کہا کہ اگر ضروری ہوا تو عدالت ان عبادت گاہوں کی دوبارہ بحالی کا بھی حکم دے سکتی ہے۔ کپل سبل نے بنچ کی توجہ 2015 میں ضلعی کلکٹر کے جاری کردہ ایک حکم نامہ کی طرف دلائی جس میں کہا گیا تھا کہ زیر بحث زمینیں صرف سرکاری مقاصد کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔ انھوں نے الزام لگایا کہ موجودہ کوشش ان زمینوں کو تیسرے فریق کو الاٹ کرنے کی ہے۔ سالیسٹر جنرل نے کہا کہ وہ یہ بیان دینے کے لیے تیار ہیں کہ کسی کو الاٹ نہیں کی جائے گی۔ ان کے بیان کو ریکارڈ کرتے ہوئے بنچ نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو اس تناظر میں ہمیں کوئی اضافی عبوری حکم جاری کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔اگلی سماعت کے لیے ۱۱؍ نومبر کی تاریخ مقرر کی جاتی ہے ۔
عدالت میں جمعیۃ کی طرف سے جو وکیل پیش ہوئے ان میں کپل سبل، حذیفہ احمدی، اعجاز مقبول، طاہر حکیم اور ثاقب انصاری شامل تھے، اس موقع پر جمعیۃ علماء گجرات کے ناظم اعلی پروفیسر نثار احمد انصاری اور دیگر اہم ذمہ داران اویس بھائی شیخانی، تبریز بھائی بہارونی بھی عدالت میں موجود تھے۔اس مقدمے میں حاجی آصف کھانڈا، غیاث الدین سابق ایم ایل اے، نصرت پانجا اور ویراول پاٹن مسلم سماج کا بھی بڑا کردار ہے ۔
عدالت کی آج کی پیش رفت پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ قدیم عبادت گاہیں ہمارے ملک کی تہذیب و وراثت کا حصہ ہیں، جنہیں محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔مولانا مدنی نے کہا کہ سومناتھ میں جو کچھ ہوا ہے ،اس سے پورے ملک میں مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔حکومتوں کو کسی کا بھی گھر اس طرح گرانا نہیں چاہیے کہ وہ انصاف کے بجائے ظلم کی تعریف میں شامل ہوجائے ،جہاں تک عباد ت گاہوں کامعاملہ ہے تو ان میں مزید حساسیت وابستہ ہے ۔
جمعیۃ علماء گجرات کے ناظم اعلیٰ پروفیسر نثار احمد انصاری نے کہاکہ ہم نے یکم اکتوبر کو اس انہدام کے خلاف گجرات ہائی کورٹ میں عرضی داخل کیے تھی، انہدام کا عمل ۲۸؍ ستمبر کو پیش آیا تھا۔ لیکن حکومت اس زمین کو کسی تیسرے فریق نہ دیدے کہ بازیابی مشکل ہوجائے ،اسی خدشے سے ہم سپریم کورٹ آئے ہیں۔ اب ہمیں سپریم کورٹ سے جو راحت ملی ہے ، وہ امید افزا ہے ۔(سورس:پریس ریلیز)