وقف بل پارلیمنٹ میں پیش ہوگیا بحث میں ہر ایک کی پوزیشن صاف ہورہی ہے کہ کون کہاں کھڑا ہے،کون آئین کا حقیقی پاسبان ہے اور کون آئین میں دی گئی ضمانتوں کو ختم کرنے کا موئد ہے ،یہی نہیں مسلمانوں کے ووٹوں کا سودا کرنے والے،انہیں ووٹ بینک کی طرح استعمال کرنے والے،ان کے لیڈر،ڈیلر،ٹریڈر، سوداگر ،دلال ،سرکاری و درباری رینماوعلما ،دانشور، سیکولرزم اور اقلیتوں کی بہی خواہی کے دعووں کے تمام مکھوٹے ،نقاب اتر جائیں گے ،معلوم تو سب کو ہے کہ کون کہاں کھڑا ہے ،کتنا ہمدرد اورخیرخواہ ہے ،مسلمانوں کے لیے اپنا سیاسی مستقبل اور پارٹی کو داؤ پر لگانے کو تیار یےـ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ بریف کیس کی سیاست کون کرتا ہے یا کررہا ہے ،یہ بھی راز نہیں کہ کس نے کب سرکار کے لیے بیٹنگ کی اور کب اچانک مسلم مفادات کے تحفظ کی بات کرنے لگا،کس کے دل میں کیا ہے کس کا دہرا اور منافقانہ کردار ہے ،کس نے ‘وفاداری’ کے عوض کیا کب اور کیسے مال غنیمت الگ الگ شکلوں میں حاصل کیا ـ سیکولر ہونے کا بھرم پالنے والی پارٹیاں کونسی ہیں اور اس کی آڑ میں ہندوتووادیوں کے ایجنڈے کو کون پورا کررہی ہیں ـ یہی نہیں مسلم جماعتیں خواہ سیاسی ہوں یا مذہبی وہ بھی آزمائش کی کسوثی پر ہیں ،ان کے وعدے،دعوے سب وقف بل کی سان پر ہیں ـاسٹیجوں سے للکارنے والے علما کا بھی امتحان ہے کہ وہ صرف عام مسلمانوں کی گردنیں ہی اترواتے رہیں گے یا اب خود بھی قربانی دینے کے لیے آگے آئیں گے ـ کون ایسے موقع کا فایدہ اٹھاکر اداروں میں توڑ پھوڑ ،قبضے کے لیے مناسب اور سنہری موقع سمجھے گا اور کون اداروں کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا، اس لیے کہ اب عام آدمی بھی ان مکھوٹوں سے تنگ آگیا ہے ،سوشل میڈیا ان کے چہروں پر پڑی معصومیت اور اور خیر خواہی کی چادر ہٹاکر بے نقاب کررہا ہے اور اب وقف بل ان کے منافقانہ لباس کو اتار کر پھینک رہا ہے
جنتادل یو اور ٹی ڈی پی کے تئیں خوش فہمیاں پالنے والے شرمندہ ہورہے ہیں دونوں نے لوک سبھا میں بحث کے دوران بل اور مودی کی خوب خوب تعریف کی ، یعنی جو لوگ ان دونوں سیکولر چیمپینوں سے اب بھی امید لگایے بیٹے تھے ان کا دل ٹوٹ گیا ،ان پارٹیوں کا خیال ہے کہ ٹھوکروں میں سر ہونے کے باوجود مسلمان ان کی چوکھٹ سے نہیں جائے گا، کتنا دھتکارو ،ذلیل کرو وہ ہمیں ہی عید ،روزہ کے موقع پر ٹوپی اور رومال پہنائے گا، ضرورت پر ووٹ بھی دے گا ـ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے ضمیر مولویوں ،نام نہاد سماجی کارکنوں کی کمی نہیں ہے ـ,بہرحال چراغ اور جینت تو غلامی کے وکٹ پر سب سے کمزور بیٹسمین ہیں نتیش اور نائیڈو کے مقابلہ ان کا ذکر ہی کیا ،اوقات ہی کیا
سوال ہے کہ کیا ہماری جدوجہد بیان بازی اور پریس ریلیز میں ہیں سکڑ جائے گی یا اب تک قربانی کا کوئی ریکارڈ نہ رکھنے والے میدان عمل میں اتر کر لوہا لیں گے ـاس لیے کہ اب کرو یا مرو کا مرحلہ ہے ـسرکار کی "عنایات و مراعات”,سے وہ بھی محروم نہیں رہیں گے ـمہلت مل سکتی ہے مگر ایک ایک کا نمبر آئے گا ـ تہذیبی کشمکش کی جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے وقف بل کی منظوری کھلا اعلان جنگ کے برابر ہے ،پھر بچانے کے لیے کیا رہ جائے گا ـوزیر اعظم مودی کی وہ تقریر یاد رکھنی چاہیے جب انہوں نے رام مندر،تین طلاق اور دفعہ 370کا تذکرہ کرتے ہویے کہا تھا کہ یہ تو ٹریلر ہے پکچر ابھی باقی ہے ـاس وقت شاید ہمارے لوگ اسے ڈی کوڈ نہیں کرپایے تھے ـ ،یوسی سی سر پر کھڑا ہے ،ار ایس ایس نے اپنے رضاکاروں کو متھرا،کاشی کے لیے آندولن کی اجازت دے دی ہے اس چو مکھی لڑائی کی تیاری تو بہت دور ہمیں اس کے دوررس بھیانک نتائج کا شعور تک نہیں ہے – مگر اب تصویر بالکل صاف ہے کچھ بھی اب ڈھکا چھپا نہیں رہا
کیا اپنے کاغذی ہمدردوں اور سیکولر ڈھونگیوں کو سبق سکھانے کا وقت آگیا ،جیسا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بار بار کیا ہے کہ جو بل کی حمایت کرے گا یا ان کے ساتھ کھڑا ہوگا وہ ہماری حمایت سے محروم ہو جائے گا ،کیا ادیب صاحب ان لوگوں کا حقہ پانی بند کرنے اور سوشل بائیکاٹ کرنے کی مہم چلائیں گے جو ان کے نزدیک مسلمانوں کے غدار اور دھوکہ باز ہیں خواہ وہ مسلمان ہوں یا دوسرے ،کیا ان علما کو اپنی گردن سے اتارنے کا وقت نہیں آگیا جن کو ملت سے زیادہ اپنا اقتدار،عہدے،منصب زیادہ عزیز ہیں جو اسلام اور مسلمانو ں کے نام پر اندرونی کھیل کرتے آیے ہیں اور شطرنج کی بساط پر مہرے ،پیادے بننے کو تیار رہتے ہیں ـان برے حالات میں بھی وہ اپنی تخریبی سرگرمیوں سے باز نہیں آرہے ہیں ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کے شرمناک کھیل میں لگے ہیں اور عوام سے توقع کرتے ہیں کہ ان حضرات کو دامت برکاتہم اور مد ظلہم العالی کہا جاتا ریے،ان کے ہاتھ چومے جائیں ،نذرانہ دیا جاتا رہےـ ہرگز نہیں ،چبا چباکر بات کرنے کا زمانہ نہیں رہا جب تک تمہید باندھیں گے اگلا اپنا کام کر جائے گا – اب صاف دوٹوک کہنے و کرنے کا وقت ہے – یہ نقاب کشائی اور مکھوٹے اترنے کا دن ہے دوست اور دشمن کو پہچاننے کا دن بی جے پی کی عنایت سے ملا ہے ،اس کا شکریہ کہ گیارہ سال کے بعد ہی سہی اس نے اپنے حلیفوں کی اصلیت بتانے کا موقع دیا
یہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے لیے بھی آخری موقع ہے کمیونٹی کے ساتھ اس کی بقا کا بھی سوال ہے جب کوئی ایسا مسئلہ ہی نہیں ہوگا تو اس کی سرگرمیوں کا میدان بھی نہیں رہے گا ـ بورڈ کو سیاسی ،مذہبی دائرے کی لکشمن ریکھا کھینچے بغیر اس لڑائی کی کمان ہاتھ میں لینی ہوگی ـ اسلام میں دین و سیاست کی تفریق کہاں ہے اور اگر بورڈ اور دیگر مسلم ادارے، تنظیمیں پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں کو شناخت کرکے ان کو جمہوری و قانونی دائرے میں رہ کر سبق سکھانے کی جرات نہیں دکھا سکے تو پھر وہ بھی کیوں ہیں؟ ـ نوبت اذان پر پابندی اور بعض حالات میں نماز کے مظاہرے پر پابندی ، مسجدوں ہر حملے تک آگئی ہے ـ تہذیبی شناخت کا ہر مظاہرہ پابندیوں کے خطرے کی ضد میں ہے ـ ابھی علاقوں کے نام بدلے چارہے ہیں ہوسکتا ہے کہ کل یہ مطالبہ ہو کہ بھارتی سنسکرتی’ کے تحت نام رکھے جائیں ـ یہ بل لاسٹ وارننگ ہے صاحبو!