تحریر:مولانا شمس الحق قاسمی (سنبھل)
ہندوستان کے اور ہندوستانی مسلمانوں کے حالات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں کبھی مساجد، کبھی مدارس اور اوقاف پر ترچھی نظر، تو کبھی علماء کرام کو قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا اور دہشت گردی کے الزام میں پھنسا کر مسلمانوں کی زندگیاں برباد کرنا اور کبھی رحمۃ للعلمین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں انتہائی گھٹیا تو ہین آمیز زبان استعمال کرکے مسلمانوں کو اذیت پہنچانا غرض ایک نہیں بہت سی مشکلات اور مصائب ہیں جو امت کو در پیش ہیں جن کی کئی وجوہات ہمارے اندر بھی موجود ہیں جہالت، بد عملی ، تفرقہ و انتشار اور مسلم قیادت کا فقدان وغیرہ جنکی وجہ سے مسلمانوں کو دینی و دنیاوی اعتبار سے بہت سی مشکلات کا سامنا ہے ان پر جب کوئی افتاد پڑتی ہے تو حوصلہ شکنی کا شکار ہو جاتے ہیں جو ہماری کمزوری کی انتہا ہے اور ایسے حالات میں یہ ہمارارویہ بن گیا ہے اور حال یہ ہے کہ ساحل کے تماشائی ہر ڈوبنے والے پر افسوس تو کرتے ہیں امداد نہیں کرتے آج ہماری قوم کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم فرقوں، مسلکوں اور کئی سیاسی جماعتوں میں بٹ کر انتشار کا شکار ہیں جس سے ہماری طاقت وقوت اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ فرقہ پرست جب چاہتے ہیں بڑی آسانی سے اپنے پنجہ میں دبوچ لیتے ہیں افسوس یہ ہے کہ اس کا حل اور اس سے چھٹکارے کا راستہ تلاش نہیں کرتے جن پر یہ حالات گزر چکے ہیں ان کا حال کیا ہوا ہوگا اس کا احساس ہمیں ہونا چاہئیے ۔
اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم یونہی ٹولیوں میں بٹ کر کامیاب ہو جائیں گے تو یہ خام خیالی اور دھوکہ ہے فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں ۔ موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں، ارشاد خداوندی ہے سب ملکر اللہ کی رسی (قرآن و سنت) کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹو آل عمران (110) جب ہم اس پر عمل پیرا ہو جائیں گے تو ہماری ملی وحدت وجود میں آئے گیہمیں اللہ کے رسول علیہ الصلوۃ والسلام کی اس حدیث مبارک پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے جس میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں ایک شخص نے کہا کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ھوں گے تو آپ نے فرمایا نہیں تم اس وقت بہت ہو گے لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی مانند ہوگے اللہ تعالی تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دےگا اور تمہارے دلوں میں وہن ڈال دےگا تو کہنے والے نے کہا اللہ کے رسول وہن کیا چیز ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈور ہے (مسند احمد 278 / (5)) ہم سیکھ بھائیوں کے اتحاد سے سبق کیوں حاصل نہیں کرتے جو کم ہونے کے باوجود مین اسٹریم کا حصہ ہیں قطروں کا اتحاد سمندر ہے قطروں کا افتراق فنا کی دلیل ہے۔ موثر حکمت عملی کے فقدان کے نتیجے میں نت نئے مسائل پیدا ھورہے ہیں توحید و اتحاد اور مسلم قیادت ہماری مشترکہ ضرورت ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک ۔ ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک ۔فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
ساتھ ہی ہمارے اندر ایک طبقہ یہ بھی ہے جو گوشه نشینی اور سیاست بیزار زندگی گزارنے کو دینداری سمجھتے ہوئے عافیت سمجھتا ہے اور سیاست کو شجر ممنوعہ گمان کرتا ہے جبکہ یہ اسلامی طرز زندگی نہیں ہے سیاست یعنی حسن تدبیر تو دین کا جزو لا ینفک ہے
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمارے لئے بہترین نمونہ موجود ہے یہ قرآن کریم کی وہ مضبوط سند ہے جو رب العلمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی ہے آئیے اسکا نمونہ دیکھتے ہیں آپ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کو ہجرت فرمائی تو اسلامی قیادت اور حکومت کی داغ بیل ڈالی تاکہ حقوق انسانی کا تحفظ هو اور بندگان خدا پر امن زندگی گزار سکیں اور امر با المعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے سکیں آل عمران آیت نمبر 110 میں ارشاد ربانی ہے تم بہترین امت ہو تم کو لوگوں کے نفع کی خاطر برپا گیا ہے تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ھو اور برائی سے روکتے ھو اور اللہ پر ایمان رکھتے ھو اس آیت میں ایک خاص نکتہ یہ کہ للناس فرمایا ہے للمومنين يا للمسلمین نہیں فرمایا اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ مسلم فرد، جماعت ، وقیادت کو بغیر کسی مذهبی امتیاز کے تمام انسانوں کی بھلائی اور حقوق کا خیال رکھنا ہے اور ان کا تحفظ کرنا ہے اور دنیا میں بطور خاص اپنے وطن عزیز ہندوستان میں قیام امن وانصاف کے لئے تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے انسانی حقوق کے تحفظ ہی کی خاطر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے یہود کے ساتھ ایک پر امن معاہدہ میثاق مدینہ کے نام سے کیا اور اس کی پابندی فرمائی ـ آج ھمارا حال یہ ھےکہ مختلف سیاسی پارٹیوں کی دریاں بجھا رہے ہیں ان کے جھنڈے اٹھا رہے ہیں ان کو اپنا ہمدرد اور خیر خواہ سمجھ رہے ہیں حالانکہ وہ ہم کو اپنا ووٹ بینک مجھتے ہیں ضرورت ہے حصول علم کی طرف پیش قدمی کرنے کی اور اپنے تعلیمی اداروں اور علمی مراکز کو وقت کے تقاضے کے مطابق اپ ڈیٹ کرنے کی جن میں ٹھوس اسلامی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم سائنس وٹکنالوجی وغیرہ کی تعلیم کا بھی اچھا بندوبست ہوتا کہ ہمارے باصلاحیت اور ہونہار نوجوان سسٹم کا حصہ بن کر اپنے وطن کی خدمت انجام دے سکیں. ۔ ملت کے مفاد میں میری تمام دینی و سیاسی رہنماؤں اور ارباب دانش اہل قلم اور اہل زبان حضرات سے مؤدبانہ
درخواست اور اپیل ہے کہ وہ اپنی کاوشیں ملی اتحاد و ملی سیاست کے وجود کے لیے بروۓ کار لائیں یہ ملت کے تمام مکاتب فکر کی مشترکہ ضرورت ہے جسکے مستقبل میں بہتر اور مفید نتائج مرتب ہوں گے انشاء الله ہمیں چاہیے کہ ہم ذاتی مفاد اور سیاسی خود غرضی سے اوپر اٹھ کر ملت کے اور ملک کے مفاد میں کام کرنے کا عزم مصمم کر لیں تو پھر یہ اہم ترین ہدف صرف اللہ کی مدد سے بآسانی حاصل کر سکتے ہیں اور اس کے لئے فی الفور ضرورت ہے کہ تمام ملی تنظیموں کا ایک قومی کنونشن بلایا جائے جس کے ذریعہ مضبوط لائحہ عمل اور پروگرام مرتب کیا جائے تا کہ ملک و ملت کی بہتر خدمات کا راستہ ہموار ہو سکے اور اس کے لئے اللہ کی بارگاہ میں دست دعا بھی دراز فرمائیں کہ اللہ رب العلمین ہم سب کو اپنی مدد اور نصرت عطا فرمایے ( نوٹ:یہ مضمون نگار کی ذاتی رائے ہے)
عائشہ مسجد سرائے ترین سنبھل