••تجزیہ:نازش احتشام اعظمی
موجودہ عہد میں میڈیا اور ٹیکنالوجی نے سیاست کے منظرنامے کو جڑ سے بدل کر رکھ دیا ہے۔ بھارت جیسے جمہوری ملک میں یہ دونوں قوتیں عوامی رائے کو تشکیل دینے اور سیاسی مباحثے کو متاثر کرنے میں بے حد اہمیت رکھتی ہیں۔ خاص طور پر نفرت انگیز سیاست کے حوالے سے ان کا کردار اب تکلیف دہ حد تک گہرا ہوچکا ہے۔ اگرچہ میڈیا اور ٹیکنالوجی نظریاتی سطح پر جمہوریت، آزادی اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مگر اس کے برعکس، یہ اب وہ طاقتور آلات بن چکے ہیں جو معاشرتی تقسیم اور نفرت پر مبنی بیانیوں کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ یہ مضمون بھارت میں نفرت انگیز سیاست کے فروغ میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کے کردار کا جائزہ لیتا ہے اور ان کے گہرے اثرات و نتائج کو بیان کرتا ہے۔
***ہندوستانی سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا عروج
ڈیجیٹل انقلاب نے میڈیا اور ٹیکنالوجی کو بھارت کی سیاست میں بے پناہ طاقت دی ہے۔ سوشل میڈیا کے تیز رفتار اور وسیع پیمانے پر اثرات نے سیاسی تعلقات کی نوعیت بدل کر رکھ دی ہے۔ ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اخبار تو پہلے ہی اہم اطلاعاتی ذرائع تھے، مگر فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو اپنے پیغامات عوام تک پہنچانے کا نیا، طاقتور اور نہایت مؤثر طریقہ فراہم کیا ہے۔ تاہم، اس نے ایک منفی پہلو بھی پیش کیا ہے، کیونکہ میڈیا کو اب اپنے مفادات کے مطابق سیاستدانوں کے مخصوص بیانیوں کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جس میں نفرت، تعصب اور فرقہ واریت جیسے پہلو بھی شامل ہیں۔
**میڈیا کا نفرت انگیز سیاست کو فروغ دینے میں کردار
بھارت میں میڈیا کا کردار عوامی رائے کی تشکیل میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر گزشتہ کچھ برسوں میں، میڈیا پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ کہانیوں کو سنسی نیشنلائز کرتا ہے، مذہبی کشیدگیاں بڑھاتا ہے اور اخباری ریٹنگز کے لیے ذمہ دار صحافت کی بجائے افواہیں اور جھوٹ کو فروغ دیتا ہے۔ یہ نہ صرف میڈیا اور عوام کے درمیان اعتماد کو مجروح کرتا ہے، بلکہ ملک میں نفرت انگیز سیاست کے بڑھتے ہوئے کلچر میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
**سنسنی نیشنلزم اور جعلی خبریں
میڈیا آؤٹ لیٹس کی جانب سے سنسی نیشنل خبریں پیش کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے۔ ایسے موضوعات، جو پہلے متنازعہ یا حساس نہیں ہوتے تھے، اب میڈیا کے ذریعے عوامی سطح پر کشیدگی کا باعث بن رہے ہیں۔ جعلی خبریں اور غیر تصدیق شدہ اطلاعات مختلف چینلز کے ذریعے تیزی سے پھیلتی ہیں، جو معاشرتی تناؤ کو بڑھا دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر، مذہبی تشدد یا ذات پات کی بنیاد پر ہونے والے واقعات کی خبریں بغیر تصدیق کے نشر کی جاتی ہیں، جس سے عوام میں بے چینی اور دشمنی کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔
***مذہبی پولرائزیشن
میڈیا میں مذہبی تقریبات کی کوریج، خصوصاً وہ جو تنازعات سے جڑی ہوتی ہیں، اکثر متعصبانہ ہو کر سامنے آتی ہے۔ ایسا مواد قومی سلامتی یا سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرہ محسوس ہونے والی کمیونٹیوں کے بارے میں لوگوں کو خوفزدہ کرتا ہے۔ اس قسم کی رپورٹنگ نہ صرف مذہبی پولرائزیشن کو فروغ دیتی ہے بلکہ سیاسی مفادات کے لیے سماجی تناؤ کو بڑھا دیتی ہے۔
**ایکو چیمبر اثر
میڈیا کے ذریعے پیش کیے جانے والے یک طرفہ بیانیے ایک ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں جسے ایکو چیمبر کہا جاتا ہے۔ اس میں افراد صرف وہ معلومات دیکھتے ہیں جو پہلے سے ان کے عقائد کی تصدیق کرتی ہیں، جس سے دیگر کمیونٹیز کے درمیان تعمیری مکالمے اور سمجھ بوجھ کی راہ میں رکاوٹ آتی ہے۔ اس کے نتیجے میں سیاسی اختلافات مزید شدت اختیار کر جاتے ہیں اور عوامی سطح پر تقسیم مزید گہری ہو جاتی ہے۔
**سوشل میڈیا کا نفرتی سیاست پر اثر
سوشل میڈیا نے جہاں ایک طرف عوامی سیاسی مصروفیت میں اضافہ کیا ہے، وہیں دوسری طرف اس نے نفرت انگیز بیانات، تعصبات اور زہریلی تقاریر کے پھیلاؤ میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام اور واٹس ایپ جیسے پلیٹ فارمز کو سیاسی جماعتیں اب انتخابی مہمات کے لیے ایک طاقتور ذریعہ سمجھتی ہیں، مگر بدقسمتی سے ان کا استعمال اکثر نفرت انگیز پیغامات پھیلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
*غلط معلومات اور ہیٹ اسپیچ کا پھیلاؤ
سوشل میڈیا پر گمراہ کن معلومات اور نفرت انگیز تقاریر کا پھیلاؤ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ غلط معلومات، ویڈیوز اور تصاویر کی صورت میں تیزی سے پھیلتی ہیں اور اس کے تباہ کن نتائج ہوتے ہیں۔ سیاسی گروہ اکثر ان پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہیں تاکہ جھوٹے بیانیے کے ذریعے مذہبی یا نسلی گروپوں کو نشانہ بنایا جا سکے اور ان میں خوف و ہراس پیدا کیا جا سکے۔
**الگورڈمز کا استحصال
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اپنے الگورڈمز کا استعمال کرتے ہیں تاکہ صارفین کو ان کی پسند کے مطابق مواد دکھایا جائے۔ اس سے یہ خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ افراد صرف وہ مواد دیکھیں گے جو ان کے موجودہ عقائد کو مزید تقویت دے، جس سے مزید پولرائزیشن بڑھتی ہے۔ سیاسی گروہ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خاص ناظرین تک نفرت اور خوف کی بنیاد پر پیغامات پہنچاتے ہیں۔
سیاسی مہمات اور نفرت کو متحرک کرنا
انتخابی مہمات کے دوران، سوشل میڈیا سیاسی جماعتوں کے لیے ایک طاقتور ہتھیار بن جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اکثر سیاسی جماعتیں اس کا استعمال تقسیم کو بڑھا کر مخصوص ووٹنگ بلاکس کو متحرک کرنے کے لیے کرتی ہیں۔ نفرت انگیز پیغامات، جھوٹے بیانیے اور سماجی خوف کے ذریعے سیاسی گروہ عوام کو اپنے ساتھ شامل کرتے ہیں، جس سے جمہوریکے اصولوں کا نقصان ہوتا ہے۔
**بھارتی معاشرت پر میڈیا اور ٹیکنالوجی کے اثرات
جب میڈیا اور ٹیکنالوجی نفرت انگیز سیاست کو فروغ دینے کا سبب بنتے ہیں، تو ان کے اثرات بھارتی معاشرت پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے یہ پلیٹ فارمز مذہبی، ذات پات یا فرقہ واریت پر مبنی نظریات کو بڑھاوا دیتے ہیں، ملک کا سماجی تانا بانا کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
**سماجی ہم آہنگی کا خاتمہ
نفرت انگیز تقاریر اور تقسیم کرنے والی کہانیاں سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ جو کمیونٹیز پہلے ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طور پر رہتی تھیں، اب وہ مذہب، ذات یا علاقے کی بنیاد پر تقسیم ہو چکی ہیں۔ میڈیا کا کردار ان دراڑوں کو مزید گہرا کرتا ہے، اورقومی یکجہتی میں کمی آتی ہے۔
**فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ
سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقاریر کے پھیلاؤ کے نتیجے میں بھارت میں کمیونل تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ لچنگ، mob تشدد اور مذہبی فسادات جیسے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جو اکثر جعلی خبروں یا آن لائن شیئر کیے گئے اشتعال انگیز مواد سے بھڑکائے جاتے ہیں۔
**جمہوری اقدار کا نقصان
میڈیا اور ٹیکنالوجی کی طرف سے نفرت انگیز سیاست کے فروغ کا اثر بھارت کی جمہوری اقدار پر گہرہ پڑا ہے۔ جب سیاسی جماعتیں تقسیم کی سیاست کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہیں، تو وہ جمہوری اصولوں کو کمزور کر دیتی ہیں جو ملک کو متحد رکھتے ہیں۔
**ذمہ دار میڈیا اور ٹیکنالوجی کے اصلاحات کی ضرورت
ان اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اصلاحات کی جائیں تاکہ وہ سماجی ہم آہنگی، جمہوریت اور اخلاقی حکمرانی کو فروغ دیں۔
**میڈیا کی احتسابی ذمہ داری
میڈیا آؤٹ لیٹس کو اس مواد کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے جو وہ نشر کرتے ہیں۔ سنسی نیشنل رپورٹنگ، جعلی خبریں اور متعصبانہ بیانات کو روکنا ضروری ہے، اور اخلاقی صحافت کو فروغ دینا چاہیے۔ میڈیا کو ایک ضابطہ اخلاق کی پیروی کرنی چاہیے جس میں انصاف، معروضیت اور سماجی ذمہ داری کو ترجیح دی جائے۔
**سوشل میڈیا کا ضابطہ
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو نفرت انگیز تقاریر اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مزید سخت ضوابط وضع کرنا ہوں گے۔ انہیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ نقصان دہ مواد فوراً نشان زد اور ہٹا دیا جائے تاکہ ان کے پلیٹ فارمز کو نفرت پھیلانے کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے۔
**ڈیجیٹل خواندگی کو فروغ دینا
شہریوں کو انٹرنیٹ پر موجود معلومات کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کے لیے آلات فراہم کرنا ضروری ہے۔ ڈیجیٹل خواندگی کے ذریعے شہریوں کو جعلی خبریں اور نفرت انگیز تقاریر کی شناخت کرنے میں مدد مل سکتی ہے، جس سے وہ سیاسی مباحثے میں زیادہ باخبر اور تعمیری انداز میں حصہ لے سکتے ہیں۔
**نتیجہ
بھارتی سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کی طاقت بے مثال ہے۔ یہ جمہوری عمل میں زیادہ شراکت داری کا موقع فراہم کرتی ہیں، مگر جب ان کا استعمال نفرت پھیلانے کے لیے کیا جائے تو یہ سنگین خطرات پیدا کر دیتی ہیں۔ اگر بھارت کو اپنی یکجہتی اور جمہوریت کو بچانا ہے تو ضروری ہے کہ میڈیا آؤٹ لیٹس اور ٹیکنالوجی کمپنیاں ذمہ داری کے ساتھ کام کریں، تاکہ نفرت پھیلانے والے مواد کو روکا جا سکے اور سماج کو مزید تقسیم سے بچایا جا سکے۔