مجھے کچھ کہنا ہے:محمد خالد* (لکھنؤ)
ہندوستان کی شناخت مختلف مذاہب اور نظریات کے افراد کا ملک میں ایک دوسرے کے ساتھ خیر سگالی کے ماحول میں رہنا ھے. یہ ماحول اس کو ایک خاندان کی حیثیت بھی فراہم کرتا ھے کہ کسی نہ کسی بات پر اختلافات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور پھر کبھی وقت ان اختلافات کو ختم کر دیتا ھے اور کبھی کوئی منظم کوشش.
گزشتہ چند سالوں سے ملک میں جس طرح کے حالات بنے ہوئے ہیں وہ نہ صرف مسلمان کے ساتھ ہیں بلکہ دیگر مذہبی اور برادری کی شناخت رکھنے والوں کے ساتھ بھی ہیں. جہاں تک مسلمانوں کی بات ھے تو ملک کے سرکردہ اور دانشور مسلمانوں نے ہمیشہ ہی مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے حکومت اور انتظامیہ کے ذمہ داران کے ساتھ رابطہ قائم کیا ھے. اس کام کو منظم انداز میں کرنے کے لیے 1964 میں مسلم مجلس مشاورت کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا گیا تھا جس میں سیاسی، سماجی شخصیات اور مذہبی جماعتوں کے قائدین شامل ہوئے تھے. تاریخ شاہد ھے کہ ملک کے مسلمانوں کے سامنے جب بھی کوئی مسئلہ پیدا ہوا تو مسلم مجلس مشاورت نے فوری طور پر متعلقہ حکام اور ذمہ داروں سے رابطہ قائم کیا اور مسئلے کو حل کرانے کی کوشش کی. اس کا ایک بڑا فائدہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو اطمینان حاصل تھا کہ اس کو اگر کسی مصیبت یا پریشانی کا سامنا ہوگا تو ملت اسلامیہ کے سنجیدہ اور دانشور حضرات اس کو حل کرانے کے لئے موجود ہیں. بدقسمتی سے ان کوششوں کے ساتھ ایسا کوئی نظم نہیں کیا جا سکا جس کے ذریعے ملک کے دیگر شہریوں کے ساتھ مسلمانوں کے قریبی رشتے قائم کرائے جاتے. جس کے نتیجے میں مسلمان اور دیگر سبھی قوموں کے ساتھ فاصلے بن گئے مگر چونکہ اس ملک کی اکثریت ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ھے اور اس کے بعد سب سے بڑی اکثریت مسلمان کی ھے اس لئے سب سے زیادہ فاصلہ ان دونوں مذاہب کے درمیان ہی محسوس کیا جاتا ھے. کیا مسلمانوں کے سکھ برادری، عیسائی برادری یا پھر جن کو اقلیتی برادری کا نام دیا گیا جیسے جین و پارسی وغیرہ کے ساتھ بھی تو مسلمانوں کے تعلقات کی کوئی نظیر موجود نہیں ھے.
مسلم تنظیموں اور وفاق نے برادران وطن کے ساتھ باہمی تعلقات کے لئے کبھی کوئی منظم کوشش نہیں کی ھے سوائے رسمی طور پر وقتاً فوقتاً بین المذاہب کانفرنس وغیرہ کرانے کے.
ملک میں جب ایمرجنسی لگائی گئی تو حکومت نے جس کو بھی اپنا مخالف سمجھا اسے جیل میں بند کر دیا تھا جس کا ایک فائدہ یہ ہوا تھا کہ جیلوں میں قید مختلف مذاہب اور نظریات کے افراد کو ایک دوسرے کے قریب ہونے اور واقف ہونے کا موقع حاصل ہو گیا تھا. جماعت اسلامی ہند اور آر ایس ایس کے لوگوں کے درمیان بہت اچھے روابط قائم ہو گئے تھے. ایمرجنسی ختم ہونے کے بعد بھی تعلقات کا سلسلہ جاری رھا اور جماعت اسلامی ہند کے انگریزی ترجمان ریڈیئنس کے ایڈیٹر امین الحسن رضوی صاحب نے باقاعدہ طور پر آر ایس ایس کے دانشوروں کے ساتھ تحریری مکالمہ کا آغاز کیا تھا جس سے دونوں ہی طرف کے لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے اور قریب آنے کا موقع حاصل ہوا تھا مگر افسوس کہ یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا جس کی بڑی وجہ ایمرجنسی کے بعد ملک میں پائیدار حکومت کے قیام کا نہ ہونا رھا. بہت سے چھوٹے چھوٹے سیاسی دل وجود میں آ گئے.
ملکی سیاست کی اس شکل کو جمہوریت کے لئے بہت اچھا سمجھا گیا مگر حقیقت یہ ھے کہ اس سب کی وجہ سے ملک کی سیاست اپنے اپنے مفادات کے تابع ہو گئی جس کی وجہ سے ملک کے مفادات پر سیاسی جماعت کے مفاد کو ترجیح دی جانے لگی. موجودہ مرکزی حکومت بھی گرچہ اپنے مزاج اور طریقہ کار کی وجہ سے اپنی من مانی حکومت چلا رہی ھے اور اس میں شامل چھوٹی سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کی خاطر خاموش رہنے پر مجبور ہیں جسے صحت مند سیاست نہیں کہا جا سکتا
این ڈی اے حکومت کی پوری تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس کے پہلے دورانیہ میں تو مسلمانوں کے ساتھ کافی فاصلہ بنا رھا مگر دوسری بار سرکار بننے کے بعد سے مختلف مواقع پر مسلم تنظیموں کے ذمہ داران اور دیگر شخصیات کو حکومت کے کسی نہ کسی ذمہ دار کے ذریعے ملاقات کے لئے مدعو کیا جاتا رھا ھے. ایسا بھی ہوتا رھا ھے کہ کسی مسلم تنظیم یا شخصیت نے اپنے طور پر مسلمانوں کے کسی خاص مسئلے کو حل کرانے کے لئے حکومت کے ذمہ داروں سے ملاقات کی ھے. مگر ان سب کاوشوں میں تکلیف دہ بات یہ رہی ھے کہ ہمیشہ عام مسلمانوں سے بات چیت کو پوشیدہ رکھا گیا ھے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے مسائل حل ہونے کے بجائے معاشرے میں اعتماد کے ساتھ رہنے کا موقع حاصل نہیں ھے.
آر ایس ایس کو اس وقت ملک کی سیاست اور حکومت میں جو حیثیت حاصل ھے اس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ھے. آر ایس ایس کے ذریعے بار بار یہ پیغام بھی دیا جاتا ھے کہ وہ ملک کے سبھی شہریوں کے مفادات کے لئے کام کر رہی ھے اور سب کو ساتھ رکھنا چاہتی ھے تو پھر تو ایسا ہونا چاہیے تھا کہ مسلم راشٹریہ منچ جیسے نظم کی باگ ڈور کسی مسلمان کے ہاتھ میں دی جاتی مگر مسلم راشٹریہ منچ کے ذریعے جس طرح مسلم تعلیمی اداروں اور مختلف سرکاری عہدوں پر تقرر کے لئے جس طرح مسلم راشٹریہ منچ کے ذمہ دار کو اختیار دے دیا گیا ھے اس نے مسلمانوں کو آر ایس ایس سے نہ صرف مایوس کیا ھے بلکہ وہ اپنے تمام مسائل کے لئے آر ایس ایس کو ہی ذمہ دار مانتے ہیں.
مسلمانوں میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سبھی تنظیموں اور اداروں کے سربراہان کا اگر آپس میں تال میل اور قربت کی شکل بن سکے تو یہ ملک اور ملت اسلامیہ کے لئے بہتر ہوگا. ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے اور شکوک شبہات کو دور کرنے کے لیے ایک دوسرے کے قریب آنا انتہائی ضروری ھے.
آل انڈیا امام آرگنائزیشن کے ذریعے آر ایس ایس کے ذمہ داران کے ساتھ ہوئی میٹنگ اس وقت ملت اسلامیہ ہند کے درمیان ایک اہم موضوع ھے. بہتر ہوگا کہ آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت و دیگر عہدیداروں کے ساتھ منعقد ہوئی امام آرگنائزیشن کی میٹنگ کی تفصیلات سے عام مسلمانوں کو واقف کرانے کی کوشش کی جائے.
مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ ہم اس ملک کے شہری ہونے کے ناطے ملک کے دستور کے پابند ہیں اور دستور کی روشنی میں ہمیں ایک خوشگوار اور صحت مند معاشرے کی تعمیر کے لیے متحد ہونا چاہیے.
(*یہ مضمون نگار کی ذاتی رائے ہے اسے ایک نقطہ نظر کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ،صاحب مضمون لکھنؤ کے معروف ایکٹوسٹ ہیں)











