تحریر:ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
اجنبی مردوں اور عورتوں کے بارے میں شریعت کی دو تعلیمات بنیادی اور اہم ہیں : ایک یہ کہ ان کے درمیان خلوت جائز نہیں _ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
أَلَا لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ(ترمذی : 2165)
’’خبر دار! کوئی مرد کسی (اجنبی) عورت کے ساتھ خلوت میں نہ رہے ، ورنہ ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوگا ‘‘
دوسرے یہ کہ ان کے درمیان اختلاط جائز نہیں _ اختلاط کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی جگہ کچھ مرد اور کچھ عورتیں ہوں تو وہ گُھل مِل کر نہ رہیں _ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک مرتبہ مردوں اور عورتوں کا اختلاط دیکھا تو عورتوں کو مخاطب کرکے فرمایا : ’’اسْتَأْخِرْنَ ؛ فَإِنَّهُ لَيْسَ لَكُنَّ أَنْ تَحْقُقْنَ الطَّرِيقَ ، عَلَيْكُنَّ بِحَافَاتِ الطَّرِيقِ‘‘ ( ابوداؤد :5272) ’’پیچھے ہوجاؤ _ تمہیں راستے کے درمیان میں نہیں چلنا چاہیے ، راستے کے کناروں پر چلنا چاہیے۔‘‘
آگے راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے عورت دیوار سے چپک کر چلتی تھی ، یہاں تک کہ بسا اوقات اس کے کپڑے دیوار میں الجھ جاتے تھے _۔
اگر کسی مجلس میں کچھ لڑکے اور لڑکیاں یا مرد اور عورتیں ہوں اور وہ الگ الگ بیٹھیں تو ایسی مجلس کی کی ممانعت نہیں ہے _۔
اللہ کے رسول ﷺ کی ہدایت تھی کہ عورتیں بھی عید گاہ جائیں ، خواہ ان میں سے کوئی پاکی کی حالت میں نہ ہو _ یہ عورتیں اس جگہ سے جہاں مرد نماز پڑھتے تھے ، کچھ فاصلے پر رہتی تھی _ آپ مردوں کے سامنے خطبہ دیتے تھے تو اسے عورتیں بھی سنتی تھیں _ کبھی آپ محسوس کرتے کہ عورتوں تک آپ کی آواز ٹھیک سے نہیں پہنچ سکی ہے تو آپ ان کے درمیان جاکر بھی انہیں وعظ و نصیحت کرتے تھے _۔
اللہ کے رسول ﷺ کی مجلسوں میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی رہتی تھیں _ مرد آپ کو گھیرے رہتے تھے ، اس لیے خواتین آپ سے ٹھیک سے استفادہ نہیں کرپاتی تھیں _ انھوں نے آپ سے درخواست کی کہ آپ ہمارے لیے الگ سے ایک دن مقرّر کردیجیے _ آپ نے ان کی درخواست قبول کرلی _ ( بخاری : 101 ، مسلم : 2633)
عہدِ نبوی میں مردوں اور عورتوں کے اجتماعات مشترک ، لیکن اختلاط سے پاک ہوتے تھے _ مسجدِ نبوی میں مردوں اور عورتوں کے لیے داخلہ کے دروازے الگ الگ متعیّن کیے گئے تھے ، لیکن ان کی صفوں کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا تھا
_۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ نبوی میں اجنبی مردوں کے سامنے بہت سی خواتین اپنا چہرہ چھپاتی تھیں اور بعض خواتین چہرہ نہیں چھپاتی تھیں _ اس سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ چہرہ چھپانا عورت کے ستر میں شامل نہیں ہے _ اگر یہ ستر میں شامل ہوتا تو کوئی عورت کسی بھی صورت میں چہرہ نہ کھولتی _۔
عہدِ نبوی میں خواتین کی آواز کے پردہ کا کوئی تصور نہیں تھا _ اللہ کے رسول ﷺ مردوں کے درمیان ہوتے تھے _ کوئی خاتون آکر سوال کرتی تھی اور آپ کے جواب سے مطمئن ہوکر واپس چلی جاتی تھی _ صحابۂ کرام اسے دیکھتے اور اس کی آواز سنتے تھے _۔
بعض حضرات مخلوط اجتماع اور مشترک اجتماع میں فرق نہیں کرتے _ اگر کسی مجلس میں کچھ مرد اور عورتیں جمع ہوں ، ان کے درمیان پردہ حائل نہ ہو اور بعض خواتین کے چہرے کھلے ہوں تو وہ بلا تکلّف اسے مخلوط اجتماع قرار دے کر اس کے ناجائز ہونے کے فتوے صادر کرنے لگتے ہیں _۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ مشترک اجتماعات میں لازماً پردہ ہٹا دیا جائے اور خواتین لازماً اپنے چہرے کھلے رکھیں _ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کوئی خاتون لازماً اسٹیج پر بیٹھے اور ڈائس پر آکر مردوں اور عورتوں کے مشترک اجتماع سے خطاب کرے _ میں اسے بہتر سمجھتا ہوں کہ مردوں اور عورتوں کے مشترک اجتماع میں پردہ حائل رکھا جائے ، تاکہ خواتین بغیر کسی جھجھک اور تکلّف کے آزادانہ بیٹھ سکیں _ اسی طرح میں اسے بھی بہتر سمجھتا ہوں کہ خواتین عام حالات میں اپنے چہرے ڈھکے رکھیں _ میرے نزدیک یہ بھی بہتر ہے کہ خواتین اسٹیج پر نہ بیٹھیں اور ڈائس سے مردوں سے خطاب نہ کریں ، لیکن اگر مردوں اور عورتوں کے کسی مشترک اجتماع میں پردہ کی اوٹ نہ ہو ، کوئی عورت اپنا چہرہ کھلا رکھے اور کوئی خاتون اسٹیج پر بیٹھے اور ڈائس سے خطاب کرے تو اسے غلط نہیں سمجھتا اس لیے کہ شریعت نے اس کی اجازت دی ہے _ مجھے علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی یہ بات بہت اچھی لگتی ہے : ’’میں چاہتا ہوں کہ میری اہلیہ اور میری بیٹیاں اپنا چہرہ چھپائیں ، لیکن پھر بھی میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ چہرہ عورت کے ستر میں شامل ہے _۔‘‘
صدیوں تک مسلمانوں کا کلچر ایسا رہا ہے کہ عورتیں چھپاکر رکھی جانے والی چیز ہیں _ کوشش کی جاتی تھی کہ ان پر ہی نہیں ، بلکہ ان کے سایے پر بھی کسی اجنبی مرد کی نظر نہ پڑنے پائے _ کسی شدید ضرورت سے عورتوں کو گھر سے باہر نکلنا پڑتا تھا تو گھر سے سواری تک چادریں تانی جاتی تھیں _ یہ تصور عام تھا کہ عورتوں کی آواز کا پردہ ہے _ اتنی سخت احتیاط اور پابندی کی بنا پر ہی انہیں عرصے تک تعلیم سے محروم رکھا گیا _ لیکن بہر حال اتنی بات واضح رہنی چاہیے کہ یہ کلچر ہے ، جس کا دین و شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے _ ہمیں شریعت کی پابندی کرنی چاہیے ، کلچر کو دانتوں سے دباکر رکھنا ضروری نہیں ہے _۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)