تحریر:قیصر شمیم
آجکل ملی ادارے، وہاٹس ایپ سے بھی آگے بڑھ کر ٹوئٹر پر چلائے جارہے ہیں۔ اراکین سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے قائد کی رائے دو بدو جاننے کے بجائے پہلے وہاٹس ایپ پر آئیں، پھر وہاں دئے گئے لنک سے ٹویٹر پر جائیں۔
گزشتہ کل گودھرا کے سانحہ کو بیس سال پورے ہوئے۔ اس کے نتیجے میں ہونے والے فسادات کے بارے میں سوشل میڈیا پر مسلسل گفتگو ہوتی رہی۔ ہم دن بھر منتظر رہے کہ ملت کے سورما، جو بابری مسجد اور طلاقِ ثلاثہ کے معاملے میں بہت چست نظر آئے تھے، اور ابھی تھوڑے دن پہلے کلیم صدیقی و نیز اعظم خاں کے معاملے میں پرجوش تھے، وہ اس انسانیت سوز واقعہ پر بھی کچھ رہنمایانہ بیان دیں گے، مگر مجھے ملی پلیٹ فارم پر ایسا کوئی بیان نظر نہیں آیا۔ ملت کا درد رکھنے والے کچھ اخبار کا بھی کوئی ایسا پوسٹ نظر نہیں آیا۔ ممکن ہے کسی ایسی جگہ بات ہوئی ہو جہاں ہم جیسوں کی رسائی نہیں۔ اس لیے کہ ملت کے یہ رہنما خواہ ان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کرنے میں کوتاہی برتیں جن کو مشرقی دہلی کے فسادات کے بعد سے اب تک سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا ہے، مگر وہ گجرات کے فسادات کے بیس برس پورے ہونے پر کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔ ممکن ہے انہوں نے ٹویٹر پر رہنمائی فرمائی ہو اور وہاٹس ایپ پر لنک پوسٹ کرنا بھول گئے ہوں۔
بہر حال یہ دیکھ کر کچھ اطمینان ہوا کہ آج کسی نے احمدآباد کا ذکر تو چھیڑا خواہ کسی بھی ضمن میں ہو۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)