جیسا کہ امریکہ میں قبل از انتخاب رائے عامہ کے جائزوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے دوسری مدتِ صدارت کا عندیہ دینا شروع کیا تو بڑی تعداد میں امریکی پہلے ہی ایک اور قسم کے اخراج کی تلاش میں سرگرداں تھے: بیرونِ ملک منتقلی۔
گوگل کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ منگل کو امریکی ایسٹ کوسٹ پول بند ہونے کے بعد 24 گھنٹوں کے دوران گوگل پر”کینیڈا منتقلی” کے لیے تلاش میں 1,270 فیصد اضافہ ہوا۔ نیوزی لینڈ جانے کے بارے میں اسی طرح کی تلاش میں تقریباً 2,000 فیصد جبکہ آسٹریلیا کے لیے 820 فیصد اضافہ ہوا۔امریکی ایسٹ کوسٹ پر بدھ کی شام گوگل کے ایک اہلکار کے مطابق ہجرت کے بارے میں گوگل پر تلاش تینوں ممالک کے لیے ہمہ وقتی بلند سطح پر پہنچ گئی۔
گوگل قطعی اعداد و شمار فراہم نہیں کرتا لیکن امیگریشن نیوزی لینڈ کی ویب سائٹ کی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ سائٹ پر سات نومبر کو تقریباً 25,000 نئے امریکی صارفین نے لاگ ان کیا جبکہ گذشتہ سال اسی دن یہ تعداد 1,500 تھی۔ترکِ وطن کے بعض وکلاء بھی اس وقت لوگوں کے سوالات میں غرق ہیں۔
کینیڈا کی سب سے پرانی امیگریشن لا فرم، گرین اینڈ سپیگل کے منیجنگ پارٹنر ایون گرین نے کہا، "ہر نصف گھنٹے میں ایک نئی ای میل انکوائری ہوتی ہے۔”
ہجرت کے لیے اچانک جوش و خروش بیرون ملک جانے میں لوگوں کی دلچسپی کا مظہر ہے جو ٹرمپ کی 2016 کی فتح کے بعد دیکھا گیا۔ البتہ اس بار ریپبلکن ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب نے خاص طور پر ایک باعثِ تقسیم مہم کی پیروی کی ہے جس میں ایڈیسن ریسرچ کے قبل از انتخاب رائے عامہ کے جائزوں میں تقریباً تین چوتھائی امریکی ووٹرز نے کہا کہ انہیں امریکی جمہوریت خطرے میں محسوس ہوتی تھی۔
کئی امریکیوں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ ان کی صدارت ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان نسل، جنس، بچوں کی تعلیم و تربیت اور تولیدی حقوق جیسے مسائل پر ایک بڑا اختلاف پیدا کر سکتی ہے۔