افغانستان میں طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے جمعرات کو کابل میں امریکی حکام سے ملاقات کی، جن میں قیدیوں کے امور کے لیے خصوصی ایلچی ایڈم بوہلر بھی شامل تھے۔تقریباً تین سال میں کسی امریکی وفد کا کابل کا یہ پہلا دورہ ہے۔
افغان وزارت خارجہ نے ’ایکس‘ پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا کہ "اس ملاقات کے دوران دو طرفہ تعلقات، قیدیوں کی رہائی اور امریکہ میں افغانیوں کے لیے قونصلر خدمات پر تبادلہ خیال کیا گیا”۔
خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘کے مطابق افغانستان کے لیے سابق سفیر زلمے خلیل زاد نے بھی اس ملاقات میں شرکت کی۔بوہلر نے "افغانستان اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے معاملے” پر ہونے والی پیش رفت کو اعتماد سازی کی جانب ایک موثر قدم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ افغان ۔ امریکہ تعلقات بعض اوقات مشکل رہے ہیں لیکن اب مستقبل کی طرف دیکھنا ضروری ہے
بوہلر نے افغانستان میں منشیات کے خلاف جنگ اور سکیورٹی بڑھانے کی کوششوں کی تعریف کیاس موقعے پر امیر خان متقی نے کہا کہ طالبان اپنی متوازن خارجہ پالیسی کے پیش نظر تمام فریقوں کے ساتھ مثبت تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ "یہ ضروری ہے کہ افغانستان اور امریکہ مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کریں”۔انہوں نے مزید کہاکہ "دونوں ممالک کو 20 سال کی جنگ کے اثرات پر قابو پانا چاہیے اور ایک دوسرے کے ساتھ مثبت سیاسی اور اقتصادی تعلقات قائم کرنا ہوں گے”۔طالبان کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ بوہلر نے طالبان کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔طالبان کی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان ضیا احمد توکل نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ نے امریکی وفد کا خیرمقدم کیا اور اس کی کابل آمد کو دو طرفہ تعلقات میں ایک مثبت پیش رفت قرار دیا