تحریر: مسعود جاوید
اس سے پہلے برساتی مینڈک کی اصطلاح میں ان مسلم پارٹیوں اور امیدواروں کے بارے میں لکھتا رہا ہوں جو عین انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد خواب خرگوش سے بیدار ہوتے ہیں اور مسلم سماج میں اپنے آپ کو مسلم بہی خواہ اور مسلمانوں کے نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ ساڑھے چار سال تک کوئی زمینی کام نہیں کوئی عوامی رابطہ نہیں لیکن الیکشن کے وقت کھادی کرتا پاجامہ ، لینڈ کروزر اور چند دبنگ یار دوست یا باؤنسر!
لیکن پچھلے انتخابات میں شکست فاش کے بعد نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے سربراہان اکھلیش اور مایاوتی اور ان کے ورکرز، کیڈر (اور آئی ٹی سیل اگر ہے) منظر سے ایسے غائب ہوئے جیسے ان کا وجود نہ کبھی تھا اور نہ اب ہے۔ خواتین کی عصمت دری ، شہریت قانون کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کے ساتھ ظلم و زیادتی ، کورونا سے نمٹنے میں حکومت کی نااہلی، مہنگائی ،بے روزگاری اور لاء اینڈ آرڈر ، نوٹ بندی یا جی ایس ٹی کسی بھی عوامی مدعا کو لے کر یہ سڑک پر نہیں اترے، احتجاج نہیں کیا ، مظلوموں کی اشک شوئی نہیں کی ان کے گھر نہیں گئے ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے اور حد تو یہ کہ مسلم مسائل پر اپنا موقف ظاہر کرنے سے بھی گریز کرتے رہے!
جمہوری نظام میں اپوزیشن کا فریضہ منصبی ہے کہ وہ حکومت کی نااہلی پر گرفت کرے اور عوام مخالف قوانین اور سرگرمیوں کے خلاف آواز بلند کرے پر امن مظاہرے کرے۔ لیکن انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا وہ تو اپنے اپنے کمروں میں دبک کے بیٹھ گئے ۔ اس کے برعکس بی جے پی پانچ سال محنت کرتی ہے۔ مرکز سے لے کر پنچایت سطح تک لائحہ عمل بنانے کے لئے کوآرڈینیشن کرتی ہے۔
اکھلیش یادو نومبر میں پہلی بار نمودار ہوئے تو مایاوتی کا کچھ اتہ پتہ ہی نہیں تھا سوائے چند ٹویٹ کے۔ کیا ایسی اپوزیشن پارٹیاں جیت کے مستحق تھیں ؟
ظاہر ہے نہیں اسی لئے تین بار وزیر اعلیٰ رہنے والی مایاوتی کی پارٹی کے ٤٠٣ سیٹوں میں صرف ایک سیٹ ہاتھ آئی اور وہ بھی ایک مشہور سرمایہ کار کو ان کی ذاتی محنت، خدمت اور مقبولیت کی بنا پر۔ اکھلیش کو جو سیٹیں ملی ہیں وہ اس کی شخصیت یا اس کی پارٹی کی محنت اور مقبولیت کی وجہ سے نہیں بلکہ بی جے پی سے ناراضگی کی وجہ سے۔ جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے تو ہر فرقے کی اپنی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں اور مہنگائی اور بے روزگاری سے کہیں زیادہ ان کی اولین ترجیح سیکورٹی ہے۔ مسلمان بی جے پی سے خائف ہے اس لئے اسے کوئی متبادل چاہیے تھا اور وہ متبادل بدرجہ مجبوری سماجوادی میں ان کو نظر آیا اس لئے اس بار مسلمانوں کا 80 فیصد ووٹ سماجوادی کو گیا۔
گرچہ پولرایزیشن انتخابی مہم کا سب سے ضروری اجزاء ترکیبی ingredient ہو چکا ہے لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود اس بار یہ نسخہ کام نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ کھلے عام ہندو مسلم منافرت کی باتیں کرنے والے بدنام یا مشہور بی جے پی لیڈروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بار مغربی اترپردیش بالخصوص مظفر نگر کی عوام نے اپنے علاقوں کو نفرت کی لیبارٹری نہیں بننے دیا۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس بار الیکشن اپوزیشن پارٹیوں نے نہیں عوام نے لڑا ہے۔ اس لئے سچی بات یہی ہے کہ بی جے پی کی جیت سے کہیں زیادہ یہ اپوزیشن کی ہار ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)