تحریر:ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
اترپردیش کے حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتیجے آئے ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا ہے۔ اس عرصے میں تجزیوں اور تبصروں کی باڑھ آئی ہوئی ہے۔ ٹی وی اور چینلس پر مذاکرے منعقد کیے جا رہے ہیں۔اخبارات میں تجزیے شائع کیے جا رہے ہیں۔بی جے پی کی کام یابی اور دوسری پارٹیوں کی ناکامی کے اسباب جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس پس منظر میں بعض تجزیہ نگار اپنے نتائجِ تحقیق اس طرح پیش کر رہے ہیں جیسے مسلمانوں کو اس الیکشن میں شکستِ فاش ہوئی ہے۔حالاں کہ اس رخ سے الیکشن کے نتائج کاتجزیہ کرنا درست نہیں ہے۔مسلمان اس الیکشن میں فریق نہیں تھے۔ مقابلہ بی جے پی اور دوسری نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے درمیان تھا۔اس لیے تجزیہ کا رخ یہ ہونا چاہیے کہ عوامی مسائل کے حل میں ناکامی، مہنگائی اور بے روزگاری میں غیر معمولی اضافہ اورمتعدد گھوٹالوں میں ملوّث ہونے کے باوجود بی جے پی کو کیوں کام یابی ملی؟ اور دوسری پارٹیاں زور و شور سے ان ایشوز کو اٹھانے کے باوجود کیوں عوام کو اپنی جانب متوجہ نہ کر سکیں؟ جہاں تک اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی کا سوال ہے تو اس میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ اسمبلی میں ان کی تعداد24 تھی، جب کہ اس اسمبلی میں وہ بڑھ کر34 تک پہنچ گئی ہے۔
تجزیوں میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ چوں کہ گزشتہ مدّتِ کار میں اترپردیش میں حکم راں جماعت بی جے پی اور خاص طور پر اس کے وزیر اعلیٰ کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑاتھا،CAA پروٹسٹ میں حصہ لینے کی وجہ سے ان پر بھاری جرمانے عائد کیے گئے تھے،مختلف مواقع پر ان کی جانوں اور املاک کو نقصان پہنچا تھا،ان کے لیے روزگار اور معاشی ترقی کے مواقع کم سے کم ہوگئے تھے، اس لیے وہ بی جے پی کو اقتدار سے ہٹانا چاہتے تھے، جس میں انہیں کام یابی نہیں ملی۔حالاں کہ صرف مسلمانوں کو سامنے رکھ کر یوں تجزیہ کرنا درست نہیں ہے۔اگر پہلے لا اینڈ آرڈر کی صورتِ حال بہتر نہیں تھی،بے روزگاری اور مہنگائی میں روز افزوں اضافہ کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی تھی اور روزگار کے خاطر خواہ مواقع فراہم نہیں کیے گئے تھے تو یہ تمام شہریوں کے لیے تشویش کی بات ہے۔اگر حکم راں جماعت نے واقعی مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کے بجائے فرقہ وارانہ بنیادوں پر الیکشن لڑا ہے،مذہبی بنیادوں پر پولرائزیشن کی سیاست کی ہے اور مختلف اکائیوں کے درمیان منافرت پھیلانے کی کوشش کی ہے تو اس میں تمام شہریوں کے لیے خسارہ ہے۔ کیوں کہ یہ سیاست زیادہ دنوں تک کارگر نہیں ہوسکتی۔حقیقی مسائل دیر سویر سر اٹھائیں گے تب لوگوں کو خوش نما باتوں کا اسیر بنائے رکھنااور فرقہ وارانہ منافرت سے مدہوش رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔
جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے انہیں موجودہ صورت حال سے پریشان اور مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔حالات ان کے موافق ہوں یا مخالف،انہیں آسائشیں حاصل ہوں یا پریشانیاں، سیاست کی ہوا کا رخ ان کی خواہشات کے مطابق ہو یا نہ ہو، انہیں ہرگز ہراساں ہونااور گھبرانا نہیں چاہیے۔ ان کے لیے ہر حال میں خیر ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: ”مومن کا معاملہ عجیب ہے۔ وہ ہر حال میں خیر پر مبنی ہوتا ہے۔یہ خصوصیت صرف مومن کے لیے ہے، کسی اور کے لیے نہیں۔ اگر اسے کوئی خوشی حاصل ہوتی ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے۔ اس میں اس کے لیے خیر ہوتا ہے۔ اگر اسے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو وہ صبر کرتا ہے۔ اس میں اس کے لیے خیر ہوتا ہے۔“(مسلم: 2999)
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جلد بازی میں اپنے سود و زیاں کا فیصلہ نہ کریں، بلکہ حالات کا تجزیہ کرکے اپنے لیے طویل المیعاد منصوبہ بنائیں۔ وہ مختلف سیاسی پارٹیوں میں سے کسی کا ضمیمہ بننے پر اکتفا نہ کریں۔سیاسی پارٹیوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے لیے مخلص نہیں ہوتے، بلکہ انہیں ہر وقت اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔سیاسی میدان میں مسلمانوں کو خود اپنی قوت پیدا کرنی ہوگی۔ یہ قوّت کیسے حاصل ہوسکتی ہے؟ اس پر ان کی نمائندہ اور سربرآوردہ شخصیات کو غور کرنا چاہیے۔اس کے لیے ضروری نہیں کہ فرقہ وارانہ سیاست کی جائے اور مسلمانوں کو متحدہ ہوکر ووٹنگ کرنے پر ابھارا جائے،بلکہ مناسب ہے کہ سیاست عوامی مسائل کو حل کرنے اورشہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے نعرے کے ساتھ کی جائے اور مسلمانوں کے ساتھ دیگر قومیتوں کو بھی اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کی جائے۔فرقہ وارانہ سیاست کبھی کام یاب نہیں ہوئی ہے اور اس میں مسلمانوں کا بھلا نہیں ہے۔
ایک اہم بات یہ بھی ملحوظ رکھنی چاہیے کہ سیاست انسانی زندگی کا ایک گوشہ ہے،کل زندگی نہیں ہے۔سیاسی خود اختیاری حاصل کرنے کی کوشش کے ساتھ انہیں زندگی کے دوسرے میدانوں میں بھی نمایاں پوزیشن حاصل کرنے کی جدّوجہد کرنی چاہیے۔ تعلیم کے میدان میں مسلمان ابھی بہت پیچھے ہیں۔ ان کی نئی نسل کی خاصی تعداد علم سے بے بہرہ ہے۔تعلیم کے سلسلے میں سرکاری سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ انہیں بڑی تعداد میں پرائیوٹ ادارے قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ وہ پورے ملک میں مکاتب اور اسکولوں کا جال بچھادیں۔اعلیٰ اور اختصاصی تعلیم کے لیے پروفیشنل کورسز کے ادارے بھی قائم کریں۔ان کی کوشش ہو کہ کوئی مسلمان بچہ تعلیم سے بے بہرہ نہ رہ جائے۔ خاص طور سے ان مسلم بچوں کی فکر کریں جو غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر تعلیمی وظائف کا انتظام کریں، تاکہ کوئی ذہین بچہ، جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہو، مصارف فراہم نہ ہونے کی وجہ سے اس سے محروم نہ رہ جائے۔مسلمان معاش کے میدان میں بھی بہت پیچھے ہیں۔ مختلف سرکاری کمیٹیوں نے ان کے معاشی طور پر پس ماندہ ہونے کی تصدیق کی ہے۔ صاحبِ ثروت مسلمانوں کو اس کی بھی فکر کرنی چاہیے۔وہ ایسی اسکیمیں چلائیں جن سے مسلمان معاشی طور پر مضبوط ہوں اور اس میدان میں ترقی کریں۔ تعلیم اور معاش دونوں میدانوں میں مسلمان ترقی کریں گے تو انھیں سیاسی میدان میں بھی قوت حاصل ہوگی اور ان کا وزن محسوس کیا جائے گا۔
مسلمانوں کی حیثیت اس ملک میں مانگنے والی قوم کی بن گئی ہے اور مانگنے والوں کو کبھی عزّت و احترام کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ انہیں دینے والا بننا چاہیے۔ ان کے پاس مضبوط عقیدہ ہے،پاکیزہ طریقۂ زندگی ہے،لوگوں کے دلوں کو کھینچنے والی مؤثر تعلیمات ہیں۔ وہ دبے کچلے اور مظلوم انسانوں کے نجات دہندہ بن کر سامنے آسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مخاطب کرکے فرمایا ہے: ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو!انصاف کے عَلَم بردار اور اللہ واسطے کے گواہ بنو۔“(النساء:35)
مسلمان سماج میں عدل و انصاف کو نافذ کرنے والے بنیں۔ ظلم کوئی بھی کرے، اس کے خلاف آواز بلند کریں اور ظلم کسی پر بھی ہو، اس کی حمایت کریں اور اسے ظلم سے بچانے کی کوشش کریں۔ اگر وہ ایسا کریں گے جو عوام کے دل جیت لیں گے، پھر ان کو قدر و تحسین کی نظر سے دیکھا جائے گا، ان کی آواز سنی جائے گی اوران کی حمایت میں آوازیں بلند ہوں گی۔ مسلمان ایک پیغام کے علم بردار ہیں۔ انہیں ہمیشہ اپنی یہ حیثیت اپنی نظروں کے سامنے رکھنی چاہیے۔ وہ پیغامِ الٰہی کواللہ کے بندوں تک پہنچا سکیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں امن و امان کی فضا قائم رہے۔ مسلمانوں کے دشمن ملک کی فضا کو مسموم بنانا چاہتے ہیں۔ وہ سماج کی تشکیل فرقہ وارانہ بنیادوں پر کرنا اور مختلف قومیتوں کے درمیان زہر گھولنا چاہتے ہیں۔اس طرح ان کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان سماج سے کٹ جائیں اور مختلف مسائل میں گھر کر اپنے مشن سے غافل ہوجائیں۔ مسلمانوں کو ان کے منصوبوں کو ناکام بنانا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ملک کے تمام طبقات سے خوش گوار تعلقات رکھیں،ان کے ذہنوں میں اسلام کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کریں اور اپنے اخلاق و کردار سے ان پر مثبت اثر ڈالیں۔
خلاصہ یہ کہ موجودہ حالات سے مسلمانوں کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے،بلکہ ان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کا جائزہ لیں، اپنی سرگرمیوں میں تیزی لانے کے لیے منصوبہ بندی کریں اور اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے جدّوجہد کریں۔ حالات کی سختی انہیں پژ مردہ نہ کردے، بلکہ ان کے عزائم میں جلا پیدا کردے اوران کی کارکردگی کو مہمیز لگا دے۔ سید صادق حسین نے کیا خوب کہا ہے:؎
تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)