تحریر:جاوید نقوی
9 اگست کو کولکتہ میں 31 سالہ خاتون ڈاکٹر کو ریپ کے بعد انتہائی دردناک طریقے سے قتل کردیا گیا وہ بھی اس وقت کہ جب وہ ہسپتال میں ڈیوٹی پر مامور تھی۔۔اس انسانیت سوز جرم کے بعد ملک بھر کے ڈاکٹرز سراپا احتجاج ہیں
کولکتہ ہائی کورٹ نے ریاستی پولیس کے ہاتھ سے کیس لے کر سی بی آئی کو معاملات سونپنے کا حکم دیا ہے۔ بھارت کے چیف جسٹس نے بھی اس بیہمانہ واقعے کا ازخود نوٹس لیا ۔
اس اندوہناک واقعے کو بھی سیاسی رنگ دے کر سیاسی محاذ آرائی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ بی جے پی موجودہ صورت حال کو وزیر اعلیٰ کو کمزور کرنے کے سنہری موقع کے طور پر دیکھ رہی ہے ۔ مقتول ڈاکٹر کے والد کہتے ہیں انہیں امید ہے کہ مجرمان کو سخت ترین سزا دی جائے گی۔ یہی وہ موقع ہے کہ جب ہمارے ذہن کے پردے میں 2012ء کے ہولناک ریپ واقعے میں متاثرہ لڑکی کی والدہ آتی ہیں
نربھی کی والدہ آشا دیوی سے کولکتہ واقعے کے حوالے سے دریافت کیا گیا۔ انہوں نے بے جھجک کہا کہ ان کی بیٹی کے قاتلوں کو پھانسی ہونے کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا۔
ایک ایسی سڑن جو جڑوں تک سرایت کرچکی، اس حوالے سے بھارت کے ججز کیا کرسکتے ہیں؟
بھارت میں ریپ کے واقعات رونما ہونا عام بات ہے اور یہ غیرمتوقع نہیں کہ زیادہ تر متاثرین معاشرے کے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بھارتی میڈیا جو زیادہ تر اوپری طبقات کے مسائل پر توجہ دیتا ہے، وہ نچلے طبقے میں تیزی سے پھیلتی اس بیماری کے خلاف آواز اٹھانے میں ناکام ہے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے 2022ء کے اعداد و شمار کے مطابق 2015ء اور 2020ء کے درمیان ریپ کے رپورٹ ہونے والے واقعات میں 45 فیصد دلت خواتین تھیں۔ اور یاد رہے یہ شرح صرف رپورٹ ہونے والے کیسز کی ہے۔
اعداد و شمار کہتے ہیں بھارت میں روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 10 دلت خواتین اور لڑکیوں کے ریپ کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ جب کولکتہ میں یہ ہولناک فعل ہورہا تھا، تب ملک کے کسی اور حصے میں کسی نامعلوم خاتون کو بھی ریپ کا نشانہ بنایا جارہا ہوگا جوکہ شاید رپورٹ ہی نہ ہوا ہو
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 2016ء-2015ء کے مطابق قبائل (آدیواسی یا مقامی بھارتیوں) کی خواتین میں جنسی تشدد کی شرح سب سے زیادہ 7.8 فیصد ریکارڈ کی گئی، جس کے بعد ہندوؤں کی نچلی ذاتوں (دلت) میں 7.3 فیصد اور پھر دیگر پسماندہ طبقات میں خواتین کے خلاف جنسی جرائم کی شرح 5.4 فیصد ہے۔ صرف موازنے کے لیے بتاتا چلوں کہ وہ خواتین جو ذات اور قبیلے کی وجہ سے پسماندہ نہیں ہیں، ان کے خلاف جرائم کی یہی شرح 4.5 فیصد ہے۔
اگر ججز کو اس حوالے سے کچھ کرنا ہے تو انہیں سب سے پہلے عدلیہ پر ہی نظر ڈالنی ہوگی۔ عدلیہ سب سے زیادہ یہی کرسکتی ہے کہ وہ مثال کے طور پر حکمرانوں کے قریبی سمجھے جانے والے ریپ کے سزا یافتہ مجرمان کو پیرول دینے کا سلسلہ روک دے۔
لیکن ایک نیک نیت جج بھی کچھ نہیں کرسکتا کہ جب تین رکنی بینچ کی سربراہی کرنے والے سابق چیف جسٹس ہی 23 سالہ ریپ کے ملزم سے پوچھیں کہ کیا وہ متاثرہ لڑکی سے شادی کرے گا؟
سابق چیف جسٹس نے کہا تھا، ’اگر تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو تو ہم تمہاری مدد کرسکتے ہیں۔ اگر نہیں تو تم اپنی نوکری گنوا دو اور جیل جاؤ‘۔
5 ہزار مشتعل خواتین کارکنان کی جانب سے اس وقت کے چیف جسٹس شرد بوبڈے کو لکھے گئے خط کے مطابق، ملزم ’اسکول جانے والی نابالغ لڑکی کا پیچھا کرنے، اسے باندھنے، کپڑے کے ذریعے منہ بند کرنے اور بار بار ریپ کرنے کا مرتکب ہے۔ جبکہ اس نے متاثرہ لڑکی کو پیٹرول چھڑک کر آگ لگانے، تیزاب پھینکنے اور بھائی کو قتل کرنے کی دھمکیاں بھی دیں۔۔۔ ریپ کی حقیقت اس وقت سامنے آئی کہ جب متاثرہ لڑکی نے خودکشی کرنے کی کوشش کی‘۔
اس حوالے سے معزز ججز کچھ اور کرسکتے ہیں۔ وہ مجرمان کو ملنے والے پیرول ختم کرسکتے ہیںکولکتہ واقعے کے بعد بھی دو سیاسی بااثر ملزمان کو پیرول دیا گیا۔
ماضی میں سپریم کورٹ مثبت فیصلے دیتی رہی ہے۔ مثلا بلقیس بانو کے ریپ کے مجرمان کو قبل از وقت رہائی ملی لیکن سپریم کورٹ نے انہیں واپس جیل بھیج دیا تھا۔
ججز خواتین کے خلاف ثقافتی طور پر حمایت یافتہ جرائم کا سدِ باب کیسے کرسکتے ہیں؟ ایک دلت خاتون کو اس کے شوہر نے ریپ کے ملزمان کے چنگل سے چھڑایا لیکن اس سے کہا گیا کہ وہ اپنی بیوی کی پاک دامنی کو ثابت کرنے کے لیے ابلتے ہوئے پانی میں سے سکہ نکالے۔
ناقابلِ فہم اور فرسودہ روایات سے خواتین کی حفاظت کے لیے صرف سخت قوانین ناکافی ہیں بلکہ بہتری کے لیے بھارت کو بڑی سماجی تبدیلی درکار ہے۔