تجزیہ:شکیل اختر
آٹھ فروری کو انتخابات کے نتائج واقعی اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کے خلاف گئے تو یہ صرف اس کی سیاسی شکست نہیں ہو گی بلکہ اس کے وجود کے لیے بھی بہت بڑا چیلنج ہو گا۔لیکن اگر وہ بی جے پی کی تمام کوششوں کے باوجود تیسری بار بھی دلی میں اقتدار میں آ گئی تو پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال کی اہمیت بہت بڑھ جائے گی اور یہ بی جے پی کے لیے بہت بڑا سیاسی دھچکہ ہوگا۔عام آدمی پارٹی گزشتہ دس برس سے دلی میں اقتدار میں ہے۔ اروند کیجریوال کی قیادت میں عام آدمی پارٹی 2015 میں 70 رکنی اسمبلی میں 67 اور 2020 میں 62 سیٹوں کے ساتھ کامیاب ہوئی تھی۔عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے علاوہ بڑی جماعتوں میں کانگریس بھی انتخابی میدان میں تھی۔نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے کبھی بھی کسی ریاستی انتخاب میں مسلسل تیسری بار شکست نہیں کھائی۔تجزیہ کار آرتی جے رتھ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر بی جے پی اس بار بھی دلی کے اسمبلی انتخابات میں ہار گئی تو یہ نہ صرف پارٹی کے لیے بلکہ نریندر مودی کی سیاسی ساکھ کے لیے بھی بڑا دھچکہ ہو گا۔جے پی نے ماضی کے انتخابات میں بھی عام آدمی پارٹی کو شکست دینے کے لیے پوری طاقت لگائی تھی۔ اس بار بھی وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی صدر جے پی نڈا کے علاوہ وزیر داخلہ امیت شاہ، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، آسام، اتر پردیش، مہاراشٹر کے وزرا اعلی اور متعدد مرکزی وزرا نے انتخابی مہم میں حصہ لیا۔بی جے پی کی نظریاتی تنظیم آر ایس ایس نے گزشتہ ایک مہینے میں دلی میں ووٹروں کے ساتھ 50 ہزار سے زیادہ ڈرائنگ روم میٹنگز کی ہیں۔
تجزیہ کار آشوتوش نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’ماضی کے مقابلے اس بار بی جے پی کے لیے انتخاب جیتنے کا سب سے بہترین موقع ہے۔ اگر بی جے پی یہ انتخاب نہ جیت سکی تو وہ اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہارے گی۔‘
’عام آدمی پارٹی کی حکومت کے بارے میں عوام میں بیزاری ہے۔ ان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات ہیں ۔ اس لیے یہ بی جے پی کے لیے اچھا موقع ہے لیکن اگر پھر بھی اروند کیجریوال انتخاب جیتتے ہیں تو یہ بہت تاریخی لمحہ ہو گا، اس سے ذاتی طور پر کیجریوال کا سیاسی قد بڑھے گا اور عام آدمی پارٹی کا سیاسی اثر قومی سطح پر بڑھ جائے گا۔‘
آشوتوش کہتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی، کانگریس اور بی جے پی کی طرح پچاس برس پرانی پارٹی نہیں اور اس کی جڑیں ابھی اتنی مضبوط نہیں۔
پارٹی کے بارے میں جو خدشات ہیں وہ بے بنیاد نہیں کیونکہ اس کی جڑیں پرانی جماعتوں کی طرح مضبوط نہیں۔ اس کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے یہ پارٹی ایک فرد واحد کے گرد جمع ہو گئی۔ اس کے اندر دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح کا تنظیمی ڈھانچہ نہیں۔‘
’اس کا کام کرنے کا طرز الگ ہے۔ دلی عام آدمی پارٹی کا گڑھ ہے۔ اگر وہ یہاں ہارتی ہے اور اقتدار سے باہر ہو جاتی ہے تو ایک طرح سے ان کے لیے اپنے وجود کو زندہ رکھنے کا بحران پیدا ہو جائے گا۔‘
آشوتوش کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اگر کسی ریاست میں ایک انتخاب ہار جاتے ہیں تو اگلی بار وہ جیت کے لیے آتے ہیں۔ یہاں اگر شکست ہو گئی تو انتخاب جتوانے کی ان کی ذاتی صلاحیتوں کے بارے میں بھی سوال اٹھیں گے۔
یاد رہے کہ عام آدمی پارٹی سیاست میں بدعنوانی کے خلاف ایک تحریک کے طور پر اروند کیجریوال کی قیادت میں وجود میں آئی تھی۔اپنے اقتدار کے پہلے پانچ برس میں پارٹی نے دلی میں سرکاری سکولوں کو بہتر بنایا، نئے سکول کھولے، بہترین ہسپتال قائم کیے، غریب اور کچی بستیوں میں رہنے والے لاکھوں باشندوں کے لیے مفت بجلی اور پانی کی سپلائی کا انتظام کیا۔لیکن 2020 مین دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد کیجریوال کی حکومت تقریباً مفلوج ہو کر رہ گئی۔ ان کی حکومت پر الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے بعض مخصوص کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے شراب کی فروخت کے لائسنس کی پالیسی میں گھپلے کیے۔اس الزام میں وزیر اعلی اروند کیجریوال کو جیل بھیجا گیا اور انھیں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا
آدمی پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ الزامات فرضی ہیں اور بی جے پی انھیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے یہ حربے استعمال کر رہی ہے۔ کیجریوال اور پارٹی کے کئی بڑے رہنماؤں کے جیل میں ہونے کے سبب عام آدمی پارٹی کی حکومت کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی۔
تجزیہ کار آرتی جےرتھ کہتی ہیں کہ ’عام آدمی پارٹی کو غریب طبقے اور دلت آبادی کے ساتھ مڈل کلاس کے لوگوں کی زبردست حمایت حاصل تھی لیکن گزشتہ دو، تین برس میں حکومت کچھ خاص کام نہیں کر سکی، دارالحکومت کی سڑکیں بری حالت میں ہیں، فضائی آلودگی ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے، شہر میں کوئی بڑا تعلیمی ادارہ نہیں کھولا گیا۔ ان وجوہات کی بنا پر مڈل کلاس عام آدمی پارٹی سے بہت حد تک بدظن ہوِہ ہے۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’بی جے پی اگر دلی کا انتخاب جیت گئی تو یہ اس کے لیے بڑی کامیابی ہوگی۔ یہ ہریانہ اور مہاراشٹر کے بعد اس کی تیسری جیت ہو گی۔ آئندہ مہینوں میں بہار میں انتخابات ہونے والے ہیں جو بی جے پی کے لیے دلی سے بھی زیادہ اہم ہیں۔‘اروند کیجریوال نے دلی کی انتخابی مہم کے دوران الیکشن کمیشن پر جانبداری کا الزام عائد کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ کمیشن بی جے پی کو جتوانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ان کے الزام کو بے بنیاد قرار دے کر رد کر دیا۔بی جے پی ترجمان شازیہ علمی کا کہنا ہے کہ ’عام آدمی پارٹی ملک کے جمہوری اداروں کا احترام نہیں کرتی۔ وہ سبھی اداروں کو بدنام کرتی ہے۔ اس نے الیکشن کمیشن پر بھی الزام عائد کیا اور یہ اس کی شکست کی علامت ہے۔‘