دولفظ: دانش ریاض
یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میگھالیہ کے چانسلر محترم محبوب الحق صاحب کی آسام ٹاسک فورس کے ذریعہ گرفتاری اس بات کوثابت کرتی ہے کہ ملک میں مسلمانوں کو اب تعلیمی طور پر بھی آگے بڑھنے نہیں دیا جائے گا۔ محبوب الحق صاحب کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے نارتھ ایسٹ میں نہ صرف شاندار یونیورسٹی قائم کی ہے بلکہ مذکورہ خطے کے تمام طلبہ کو اپنی ہی سرزمین پر بہترین تعلیمی سہولت میسر کروایاہے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے میڈیکل کالج اور اسپتال بھی شروع کیاہے جس کی مخالفت آسام کے وزیر اعلیٰ کرتے رہے ہیں۔دراصل آسام کے وزیر اعلیٰ کو پریشانی یہ ہے کہ آخر ایک مسلمان تعلیمی طور پر بھی ’’چودھری‘‘کیسے بن سکتا ہے۔ تکنیکی طور پر وہ یونیورسٹی کو نقصان پہنچانے میں ناکام رہے ہیں لہذا اب انہوں نے یونیورسٹی کے چانسلر کے گرد گھیرا تنگ کیا ہے کیوں کہ محبوب الحق آسام کے رہائشی ہیں۔ ’’نیلی قتل عام ‘‘کے بعد آسام کے مسلمانوں کو نہ صرف تعلیمی اور سماجی طور پر پسماندہ بنادیا گیا تھا بلکہ دلتوں سے زیادہ بدتر حالت میں پہنچا دیا گیا تھا ایسے میں محبوب الحق نے نہ صرف ان لوگوں کے اندر ہوش و خرد کو پروان چڑھایا ہےبلکہ انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ بہترین زندگی کے لئے تعلیم سے وابستہ ہوں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنی زندگی کو خوبصورت بنائیں۔ لیکن وہ لوگ جو مسلمانوں کو بد سے بدترین دیکھنا چاہتے ہیں انہیں یہ بات راس نہیں آرہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ گودی میڈیا بھی اب ایسی اسٹوریز شائع کررہا ہے جس کا دور دور تک محبوب الحق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔