تحریر:نریندر نگر
ان دنوں ملک میں کشمیر فائلز کے نام سے ایک فلم کا بہت چرچا ہے، لیکن کشمیر کی ایک فائل ڈھائی سال سے سپریم کورٹ میں پڑی ہے، اس پر کوئی بحث نہیں کر رہا۔
یہ فائل مرکز کے ان فیصلوں کے بارے میں ہے جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر پر لاگو آرٹیکل 370 کو غیر فعال کر دیا گیا تھا، ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا، ان کی حیثیت کو کم کر دیا گیا تھا۔ وہاں کے لوگوں کے شہری حقوق چھین لیے گئے۔ اس طرح کے کئی مسائل ہیں لیکن سپریم کورٹ کا یہ حال ہے کہ ابتدائی سماعت کے بعد پچھلے دو سال سے ان فائلوں کے صفحات نہیں پلٹ رہے ۔
جب مرکز 5-6 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد ریاست کی تقسیم کی طرف بڑھا تو کچھ عرضی گزار اسے روکنے کے لیے عدالت گئے۔ یہ 1 اکتوبر 2019 کی بات ہے۔ تب سپریم کورٹ نے مرکز کے اقدام پر روک لگانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ عرضی گزار پریشان نہ ہوں، عدالت گھڑی کی سوئیاں پیچھے بھی کروا سکتی ہے۔ لیکن گھڑی کی سوئیاں پیچھے ہونا تو دور ، لگتا یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں ہی گھڑی کے کانٹیں روک گئے ہیں۔ڈھائی سال میں سپریم کورٹ ڈھائی کوس بھی نہیں چلایا ہے۔
یہ بالکل حیران کن ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالت جو 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں کسی ریاستی حکومت کو برخاست کرنے کے معاملے میں مداخلت کرتی ہے، ایک ریاست میں اتنی بڑی آئینی تبدیلی پر خاموش ہے، وہ ایک ریاست میںہوئے اتنے بڑے آئینی الٹ پھیر پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ، وہ بھی ایک ایسے معاملے میں جس کے ساتھ اائین کے کئی آرٹیکل ، کئی معاہدے اور جموں وکشمیر کے عوام اور عوامی نمائندوں سے کئے گئے کئی کئی وعدے جوڑے ہوئے ہیں ۔
سپریم کورٹ کے جج صاحبان آئین کے مسائل کو ہم سے لاکھ گنا بہتر جانتے ہیں، لیکن شہری ہونے کے ناطے ہم اور ہم جیسے بہت سے لوگ ان چند سوالوں کے جوابات کے انتظار میں مہینوں سے بیٹھے ہیں۔ ہم عدالت سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ۔
کیا جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی دفعہ 370 کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے؟ اپریل 2018 میں ہی سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے کہا تھا کہ چونکہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی صرف1957 میں تحلیل ہوئی تھی اور وہ صرف اس آرٹیکل کو ختم کرنے پر رضامندی دے سکتی ہے، اس لیے یہ آرٹیکل آئین کے نقطہ نظر سے لازوال ہے۔ یہ دونوں ججوں کی رائے تھی۔ آپ پانچ جج اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
حکومت نے اگست 2019 میں آرٹیکل367 میں ترمیم کرتے ہوئے یہ اضافہ کیا کہ آرٹیکل 370 کی شق 3 میں جس آئین ساز اسمبلی کا حوالہ دیا گیا ہے اس کا مطلب موجودہ تناظر میں ریاست کی قانون ساز اسمبلی ہے اور ہم اسے ایک دلیل کے طور پر لیتے ہیں کیونکہ دونوں کو عوام کےذریعہ منتخب کئے گئے ادارے ہیں، تو کیا آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے لیے جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کی رائے لی گئی؟ آپ جانتے ہیں کہ نہیں لیا گیا کیونکہ تب گورنر راج تھا۔ کیا ایسی صورت میں حکومت کا اقدام قانونی ہے؟ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
یہ قدم اٹھاتے ہوئے مرکزی حکومت نے دفعہ 367 میں چوتھی شق کا اضافہ کیا تاکہ جموں و کشمیر کے معاملے میں گورنر کو بھی حکومت سمجھا جائے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ گورنر ریاست کے لوگوں کی مرضی کی نمائندگی کرتا ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آرٹیکل 367 میں جو بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں وہ آرٹیکل 370 کی روح کے تحت جائز ہیں؟
آپ جانتے ہیں کہ جموں و کشمیر کا ہندوستان سے الحاق ایک معاہدے کے تحت ہوا تھا اور اس انضمام کے خط میں درج تھا کہ انضمام کے بعد مرکز اور ریاست کے حقوق کیا ہوں گے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ آرٹیکل 370 اس انضمام کے خط کی شرائط کے مطابق تیار کیا گیا تھا۔ ایسے میں کیا آپ سمجھتے ہیں کہ انضمام کے خط کی ان شرائط کو ریاست کے عوام کی رضامندی کے بغیر اور صرف پارلیمنٹ میں اکثریت کی بنیاد پر توڑا جا سکتا ہے؟
ہم نہیں مانتے کہ سپریم کورٹ اتنے اہم آئینی معاملات کی اہمیت کو نہیں سمجھ رہی ہے۔ لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیس کی سماعت میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے۔
ہم نہیں جانتے کہ تاخیر کیوں ہو رہی ہے اور ہم اس کے بارے میں کوئی قیاس نہیں کریں گے۔ لیکن ایک تاخیر ہے، یہ واضح ہے۔ انگریزی میں ایک کہاوت ہے – justice delayed is justice denied :’’ انصاف میں تاخیر انصاف نہیں کرنے کے برابر ہے۔
‘‘
(بشکریہ: ستیہ ہندی)