پریاگ راج :(ایجنسی)
پریاگ راج میں اتوار کو بلڈوزر کے ذریعے جس گھر کو منہدم کر دیا گیا،اس پر سرکار کی نظر چند دن پہلے سے ہی تھی، کہنے کو وہ گھر ویلفیئر پارٹی کے ضلع صدر جاوید محمد کا ہے، لیکن وہ گھر آفرین فاطمہ کا بھی ہے جو اسٹوڈنٹ لیڈر ہیں اور شاہین باغ تحریک سے نمایاں طور پر وابستہ رہی ہیں ۔ پیغمبر اسلام ؐ پر تبصرے کے نام پر جو مظاہرے ہو رہے ہیں ، ان میں پولیس اب زیادہ تر ایک مخصوص کمیونٹی کے رہنماؤں، کارکنوں اور سماجی کارکنوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ کانپور اور سہارنپور میں کئی ایس پی لیڈروں کو تشدد کرنے والوں میںنامزد کردیا گیاہے ۔ نوپور شرما کی گرفتاری کا معاملہ اب کہیں پیچھے چھوٹ گیاہے ۔
الہ آباد میں جمعہ کی نماز کے بعد اٹالہ بڑی مسجد پرمسلمانوںنے احتجاج کیا۔ کچھ عناصر نے اس درمیان پتھراؤ کیا لیکن پولیس نے فوراً ہی حالات کو سنبھال لیا ۔ یعنی یہ پتھر بازی چند منٹ چلی ہوگی۔ یہاں پر کانپورجیسی کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی بازار بند کرایا گیا۔ پریاگ راج پولیس نے اس مبینہ تشدد کے معاملے میں اٹالہ بڑی مسجد کے امام علی احمد، اے آئی ایم آئی ایم ضلع صدر شاہ عالم، ذیشان رحمانی، سارہ احمد ، بائیں بازو کے لیڈر ڈاکٹر آشیش متل، علی احمد وغیرہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
اتنے ناموں کی ایف آئی آر آنے کے بعد الہ آباد میں ہونے والے مظاہرے کا ماسٹر مائنڈ ویلفیئر پارٹی کے صدر جاوید محمد کو بتایا گیا اور پوری انتظامیہ اور حکومت کی توجہ جاوید احمد کے گھر پر مرکوز ہو گئی۔ ہفتے کی رات پولیس نے آفرین فاطمہ کے والد جاوید محمد، والدہ پروین فاطمہ اور بہن سمیہ فاطمہ کو گھر سے اٹھا لیا۔ پروین اور سمیہ کے خلاف کوئی ایف آئی آر نہیں تھی لیکن انہیں غیر قانونی طور پر اٹھایا گیا تھا۔ آفرین فاطمہ نے فوری طور پر قومی کمیشن برائے خواتین کو ایک خط بھیجا جس میں بتایا گیا کہ ان کے اہل خانہ کو بغیر کسی وارنٹ کے گھر سے اٹھا لیا گیا ہے۔ ادھر انتظامیہ نے جاوید کے گھر پر نوٹس چسپاں کر دیا اور اتوار کو بغیر کسی کی موجودگی کے گھر پر بلڈوزر چلانا شروع کر دیا گیا۔ پولیس نے یہاں سے ویلفیئر پارٹی کا جھنڈا اور تشہیری مواد بھی برآمد کیا ہے۔
الہ آباد کی ایک خاتون وکیل سیما آزاد نے کسی طرح پولیس حراست میں آفرین کی ماں پروین اور بہن سمیہ سے بات کی، پھر انہوں نے جو کچھ بتایا وہ دل دہلا دینے والا ہے۔ پولیس نے پروین اور سمیہ سے پوچھا کہ آپ کے گھر میں کیا بات چیت ہوتی تھی ؟
آفرین فاطمہ نے میڈیا کو بتایا کہ جمعہ کے واقعے سے قبل بھی پولیس نے ان کے والد جاوید محمد کے خلاف دفعہ 107 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ آفرین نے کہا کہ اس کیس کے درج کرنے کا مطلب یہ تھا کہ شہر میں کہیں بھی کچھ ہوا تو اس کے والد ذمہ دار ہوں گے۔ جمعہ کو جب احتجاج ہوا تو انتظامیہ کی ساری توجہ جاوید محمد پر مرکوز تھی۔ حالانکہ ایف آئی آر میں کئی نام ہیں۔ آفرین کے مطابق پولیس اہلکار اسی رات ان کے الہ آباد گھر آئے اور سب کو اسٹیشن چلنے کو کہا۔ جب انہوں نے جانے سے انکار کیا تو انہیں نے زبردستی گھر خالی کر ا کر اس پر تالا لگا دیا۔ اس طرح انتظامیہ اور سرکار پورا کام منصوبہ بند طریقے سے کررہی تھی ۔
آفرین فاطمہ شاہین باغ تحریک کے دوران دہلی کے جے این یو سے الہ آباد تک سرگرم تھیں۔ اس کے بعد وہ سوشل میڈیا پر حکومت کی اقلیتوں سے متعلق پالیسیوں پر تنقید کرتی نظر آئیں۔ دائیں بازو کے خیالات کو فروغ دینے اور پھیلانے والے ایک پورٹل نے آفرین کو جیل میں بند طالب علم رہنما شرجیل امام کا معاون بتایا ہے۔ آفرین فاطمہ اور ان کے والد کے ویلفیئر پارٹی میں ہونے پر تنقید سرکار کو پسند نہیں آئی۔ چنانچہ اس پریوار کو بہت طریقے سے اتوار کو بے گھر کر دیا گیا ۔ اس معاملے میں پولیس اور انتظامیہ کی کارروائی کے صحیح غلط کا فیصلہ تو عدالت میں ہوگا۔ لیکن الہ آباد کے کریلی علاقے میں جہاں یہ گھر ہے، وہاں زیادہ تر گھر مسلمانوں کے ہیں ۔ کریلی پہلے اتنا آباد نہیں تھا، یہاںپر لوگوں نے زمین خرید کر گھر بنائے ہیں۔ یہاں پر انتظامیہ کسی بھی گھر میں کوئی کمی بتا کر توڑ سکتی ہے، جبکہ یوپی سرکار میں بڑے عہدے سے ریٹائرڈ افسروں کے گھر بھی یہاں پر ہیں ۔
اس سے پہلے جمعہ کو میونسپل کی ٹیموں نے پولیس کے ساتھ مل کر سہارنپور میں دو ملزمین کے مکانات کو مسمار کیا تھا۔ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ غیر قانونی تعمیرات تھیں۔ کانپور میں بھی اس کی توڑ پھوڑ کی گئی، جہاں اسی مسئلہ پر 3 جون کو پرتشدد جھڑپیں اور پتھراؤ ہوا تھا۔ اترپردیش پولیس نے جمعہ کے احتجاج اور تشدد کے سلسلے میں ریاست کے مختلف اضلاع سے 300 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیاہے، وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف ’سخت‘ کارروائی کا انتباہ دیا۔ پولیس نے بتایا کہ گرفتار کیے گئے افراد میں سے 91 پریاگ راج، 71 سہارنپور اور 51 ہاتھرس میں پکڑے گئے ۔