تحریر:روہت کھنہ
یہ جو انڈیا ہے نا، یہاں کوئی یا تو یتی نرسنگھانند سے ڈرتا ہے، یا ان کی ہیٹ اسپیچ کا خاموشی سے حمایت کرتا ہے۔ 3 اپریل کو ملک کی راجدھانی ،دہلی کے براڑی علاقے میں، نرسنگھا نند نے ایک مبینہ ہندو مہا پنچایت میں کیا کہا :’ 40 فیصد ہندو مارے جائیں گے اگر کوئی مسلم پی ایم بنا ۔ 50 فیصد ہندوؤں کا تبدیلی مذہب ہوجائے گا ۔ اس سے لڑنے کے لئے مرد بنو ۔ ہتھیار اٹھاؤ !‘
یہ 100 فیصد نفرت انگیز تقریر ہے۔ کھلے عام ، جو کرناہے کر لو۔
میں کیوں کہہ رہا ہوں، جو کرنا ہے کرو؟ کیونکہ صرف دو ماہ قبل نرسنگھانند اسی گناہیعنی نفرت انگیز تقریر کرنے کے لیے جیل میں تھے۔ دسمبر 2021 میں ہری دوار میں منعقدہ،مبینہ دھرم سنسد ، جو کہ اصل میں ایک نفرتی سنسد تھی ۔ اس میں نرسنگھانند کٹر ہندوتوا لیڈروں کے ساتھ کھلے عام نفرت انگیز تقریر کررہے تھے ۔
مسلمانوں کو قتل کرنے کی اس عوامی اپیل کے بعد، نرسنگھانند کو جنوری 2022 میں گرفتار کر لیا گیا تھا، لیکن چند ہفتوں کے اندر ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔
لیکن نرسنگھانند، جنہیں ضمانت پر رہا کیا گیا تھا، دوبارہ وہی نفرت انگیز تقریر دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ کیوں؟ نرسنگھانند کو قانون کا خوف کیوں نہیں ہے؟ کیا اس لیے کہ قانون، پولیس اور حکومت نرسنگھانند سے ڈرتی ہے؟ یا پھر کسی نے ان کے کان میں کہا ہے کہ تم نفرت انگیز تقریریں کرتے رہو، ہم تمہارے پیچھے کھڑے ہیں۔اگر گرفتار ہو بھی گئے توفوراً ضمانت مل جائے گی۔ یاد رہے نرسنگھانند کی نفرت انگیز تقاریر وائرل ہیں، ایسے ویڈیوز جن پر پولیس سخت کارروائی کر سکتی ہے، لیکن پھر بھی نرسنگھانند کو صرف چند دن کی جیل ملتی ہے ، کیونکہ ان پر غداری کا الزام نہیں ہے، اس لیے انہیں یو اے پی اے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نرسنگھانند کو آسانی سے ضمانت مل جاتی ہے، لیکن عمر خالد 550 دن سے زیادہ جیل میں رہ جاتا ہے، جبکہ ایسا کوئی ویڈیو ہمارے سامنے نہیں ہے جس میں عمر نے ہیٹ اسپیچ دی ہو، اس طرح قانون کا غلط استعمال واقعی میں تکلیف دہ ہے۔
ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ 3 اپریل کی اس ہندو مہاپنچایت کو دہلی پولیس نے بھی اجازت نہیں دی تھی۔ دہلی پولیس نے بھی اسے آن ریکارڈ مان لیا ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ پولیس نے اس نفرت انگیز مہاپنچایت کو کیسے ہونے دیا؟ منتظمین نے کیوں نہیں روکا؟ اس کے ارادے، مقام، تاریخ، کچھ بھی خفیہ نہیں تھا، سب کچھ جانتے تھے۔ دہلی پولیس کو یہ بھی معلوم تھا کہ انہی لوگوں نے ستمبر 2021 میں جنتر منتر پر ایک اور نفرت انگیز کانفرنس کا انعقاد بھی کیا تھا۔
امن اور پرامن ماحول کو بار بار خراب کرنے والے ان لوگوں کو تقریب سے پہلے کیوں حراست میں نہیں لیا گیا؟ نرسنگھانند، سریش چوہانکے سمیت کتنے لوگ موقع پر بھاری پولیس فورس کے باوجود دوبارہ نفرت انگیز تقریریں کرنے میں کامیاب ہوئے؟ مجھے ڈر ہے کہ ہمیں ان سوالوں کے جواب کبھی نہیں مل پائیں گے۔
اسی مہاپنچایت کی کوریج کرنے گئے صحافیوں پر بھی حملہ کیا گیا۔ Article-14.com کے ارباب علی نے بتایا کہ ہجوم نے ان پر اور ہندوستان گزٹ کے میر فیصل پر حملہ کیا۔ ان کے فون، کیمرے چھین لیے، فوٹیج ڈیلیٹ کر دیا، اور انہیں ’جہادی‘ کہا۔
نیوز لانڈری رپورٹرز شیوانگی سکسینہ اور رونق بھٹ کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ایک ٹویٹ میں شیوانگی نے کہا کہ مہاپنچایت کے منتظمین میں سے ایک پریت سنگھ نے اسٹیج سے ان کا نام لیا۔ شاید اسی لیے ہجوم نے اسے نشانہ بنایا۔ فری لانس فوٹو جرنلسٹ محمد مہربان پر بھی حملہ کیا گیا۔ اس کے سر پر چوٹ آئی۔کوئنٹ کے میگھناد بوس سے بھی ہاتھا پائی ہوئی۔
جی ہاں، پولیس نے صحافیوں کی مدد کی۔ انہیں بھیڑ سے دور لے گئی۔ نرسنگھانند اور چوہانکے کے خلاف بھائی چارے کو بگاڑنے، دو برادریوں کے درمیان دشمنی بڑھانے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے، لیکن ایک بار پھر یہ بہت کم اور بہت دیر ہو چکا ہے۔ نقصان ہوچکا ہے، نفرت انگیز تقریر دی جاچکی ہے … یہ وائرل ہوچکی ہے۔
پریاگ راج اور رائے پور سے لے کر ہری دوار اور دہلی تک، ہندوستان بھر میں سنیما گھر، کرناٹک کے اسکول اور کالج، وہاٹس ایپ سے لے کر سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز تک نفرت کو پروان چڑھانے کی اجازت دی جا رہی ہے اور قانون کے رکھوالے اسے روکنے کے لیے یا تو کچھ نہیں یا بہت کم کر رہے ہیں ۔
اور اسی لیے میں پھر وہی بات کہتا ہوں -کہ یہ جو انڈیا ہے نام، یہاں کوئی تو ہے جو یا تو یتی نرسنگھا نند اور ان کی نفرتی جھنڈ سے ڈرتا ہے یا پھر ان کی خاموشی حمایت کرتی ہے ۔
(بشکریہ: دی کوئنٹ)