تحریر:ہمانشو مشرا
سماج وادی پارٹی میں بغاوت کا سر تیز ہوگیا ہے۔ اب تک اکھلیش یادو سے ناراض چچا شیو پال سنگھ یادو نے ہی محاذ کھول رکھا تھا، اب پارٹی کے دوسرے لیڈر بھی اس میں شامل ہو گئے ہیں۔ اس میں سب سے بڑا نام اعظم خاں کا ہے۔ تو کیا اعظم خاں، ان کے بیٹے عبداللہ اعظم خاں بھی سماج وادی پارٹی چھوڑ سکتے ہیں۔
یہ قیاس اس لیے ہے کیونکہ ایک دن پہلے ہی اعظم خاں کے میڈیا انچارج فصاحت علی خاں نے بڑا بیان دیا ۔ اس میں انہوں نے کہا کہ کیا یہ مان لیا جائے کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ٹھیک کہتے ہیںکہ اکھلیش جی، آپ نہیں چاہتے کہ اعظم خاں جیل سے باہر آئیں؟ ہمارے قومی صدر کو ہمارے کپڑوں سے بدبو آتی ہے۔
پہلے یہ جان لیں کہ فصاحت نے اور کیا کہا؟
دراصل اعظم خاں کے میڈیا انچارج فصاحت علی خاں اتوار کو رام پور میں ایک میٹنگ سے خطاب کر رہے تھے۔ اس میں انہوں نے اعظم خاں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ جیل میں بند اعظم خاں کے جیل سے باہر نہ آنے کی وجہ سے ہم لوگ سیاسی طور پر یتیم ہو گئے ہیں ، ہم کہاں جائیں گے،کس سے کہیں گے اور کس کو اپنا غمبتائیں گے ؟
ہمارے پاس وہ سماج وادی پارٹی بھی نہیں ہے، جس کے لیے ہم نے اپنے خون کا ایک ایک قطرہ بہایا ہے۔ ہمارے لیڈر محمد اعظم خاں نے ایس پی کے لیے اپنی جان دے دی، لیکن ایس پی نے اعظم خاں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ہمارے قومی صدر کو ہمارے کپڑوں سے بدبو آتی ہے۔
فصاحت نے مسلمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا سارا ٹھیکہ عبدل لے لیا ہے؟ ووٹ بھی عبدل دے گا اور جیل بھی عبدل جائے گا؟ عبدل برباد ہو جائے گا۔ گھر کی قرقی ہو جائے گی ۔ وصولی ہو جائے گی اور قومی صدر کے منھ سے ایک لفظ نہیں نکلے گا ۔ ہم نے آپ کو اور آپ کے والد کو وزیر اعلیٰ بنایا ۔ ہمارے ووٹوں کی وجہ سے آپ کی 111 سیٹیں آئی ہیں۔ آپ کے ذات کے لوگوںنے بھی آپ کو ووٹ نہیں دیا۔ لیکن پھر بھی وزیر اعلیٰ آپ بنیں گے اور لیڈر اپوزیشن بھی آپ بنیں گے ۔ کوئی دوسرا لیڈر اپوزیشن بھی نہیں بن سکتا۔ آپ نے بی جے پی سے ہماری دشمنی کرا دی اور سزا بھی ہمیں مل رہی ہے ، لیکن مزے آپ کو مل رہے ہیں ۔
ودھان سبھا اور لوک سبھا میں آپ کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔ آپ اعظم خاں سے جیل میں صرف ایک بار ملنے آئے ہیں، دوسری بار ملنے کی زحمت نہیں کی۔ کیا یہ تسلیم کر لیا جائے کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے جو کہا ہے کہ اکھلیش جی، آپ نہیں چاہتے کہ اعظم خاں جیل سے باہر آئیں۔
ایس پی ایم پی اور آر ایل ڈی کے ریاستی صدر بھی اٹھا چکے ہیں یہ مسئلہ
اس سے قبل سنبھل سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر شفیق الرحمنٰ برق اور آر ایل ڈی کے ریاستی صدر ڈاکٹر مسعود احمد بھی ایس پی کے خلاف باغیانہ بیانات دے چکے ہیں۔ میڈیا نے ڈاکٹر شفیق الرحمٰن سے پوچھا کہ کیا بی جے پی حکومت مسلمانوں کے مفاد میں کام کر رہی ہے یا نہیں؟ اس پر انہوں نے جواب دیا۔ کہا، ‘وہ بی جے پی کے کام سے مطمئن نہیں ہیں۔ بی جے پی حکومت مسلمانوں کے مفاد میں کام نہیں کر رہی ہے۔
شفیق الرحمٰن یہیں نہیں رکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘بی جے پی چھوڑو، ’سماج وادی پارٹی ہی مسلمانوں کے مفاد میں کام نہیں کر رہی ہے۔‘ اس کے بعد وہ اپنی گاڑی میں سوار ہو کر چلے گئے۔ آر ایل ڈی کے ریاستی صدر ڈاکٹر مسعود احمد نے تو ایس پی سربراہ کو ڈکٹیٹر بھی کہا تھا۔ ڈاکٹر مسعود نے ایس پی پر ٹکٹ بیچنے کا الزام لگاتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
اب جانتے ہیں کیا اعظم خاں ایس پی چھوڑدیں گے؟
سیاسی تجزیہ کار پروفیسر اجے سنگھ کا کہنا ہے کہ اس وقت اعظم خاں کے سماج وادی پارٹی چھوڑنے کی بحث میں کوئی دم نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ اپنے سیاسی مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا فیصلہ کرتے ہیں تو ان کے سامنے تین راستے ہیں۔
1- بی ایس پی:
بہوجن سماج پارٹی کو اسمبلی انتخابات میں بری شکست ہوئی ہے۔ لیکن مایاوتی سب سے زیادہ مسلمانوں کو ٹکٹ دینے میں آگے تھیں۔ الیکشن ہارنے کے بعد مایاوتی نے بھی دکھ ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسلمان بی ایس پی کا ساتھ دیتے تو بی جے پی کو شکست دی جا سکتی تھی۔ انہوں نے دلت مسلم اتحاد کے بارے میں بھی بات کی۔ ایسے میں ہوسکتا ہے کہ اعظم خاں اس دلت- مسلم اتحاد کو 2024 میں آزمانا چاہیں، حالانکہ بی ایس پی میں اعظم خاں کے جانے کی کم امید ہے ۔ ایسا اس لئے کیونکہ اعظم خاں کھل کر مایاوتی کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
2- کانگریس:
کانگریس لیڈر راہل گاندھی قومی سطح پر مسلمانوں کے لیے کھل کر بول رہے ہیں۔ اس کے لیے انہیں نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ ایسے میں اعظم خاں کانگریس کا ہاتھ پکڑ کر 2024 میں مسلمانوں کو متحد کرنے کی چال چل سکتے ہیں۔ پارٹی اعظم کو ریاستی صدر بھی بنا سکتی ہے۔ تاہم، کانگریس کے ساتھ منفی بات یہ ہے کہ اب ان کے پاس یوپی میں کوئی خاص حمایتی بنیاد نہیں ہے۔
3- اے آئی ایم آئی ایم:
اے آئی ایم آئی ایم مسلمانوں کی قومی سطح پر واحد جماعت ہے ۔اویسی کھل کر یوگی-مودی کی مخالفت کر تے آئے ہیں۔ مسلمانوں میں بھی اویسی بھائیوں کے لیے جنون ہے۔ اگر اویسی اور اعظم خاں متحد ہو جائیں تو مسلمان متحد ہو جائیں گے۔ AIMIM اور اعظم خاں دونوں کو اس کا فائدہ ملے گا۔ تاہم ایسا کرنے سے اعظم کی سیاسی شناخت ختم ہونے کا امکان ہے۔ اویسی برادران غالب رہیں گے، جبکہ اعظم پیچھے رہ سکتے ہیں۔