تحریر:انل جین
گزشتہ چند برسوں کے دوران یہ مسلسل دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی ریاست میں جہاں اسمبلی انتخابات میں کوئی واضح مینڈیٹ نہیں ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی ایم ایل اے کی جوڑ توڑ اور خرید وفروخت کے ذریعے اپنی اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ جب ایسی کوشش کامیاب ہوجاتی ہے تو درباری میڈیا اسے بی جے پی کا ’ماسٹر اسٹروک‘ بتاتا ہے ۔
پانچ سال قبل منی پور اور گواکے اسمبلی انتخابات میں کانگریس اکثریت کے نزدیک پہنچ کر سب سے بڑی پارٹی کی شکل میں ابھری تھی ،لیکن اپنے ذمہ دار مرکزی قائدین کی غلطیوں اور لاپروائی کے سبب وہ سرکار نہیں بناپائی تھی ۔ بی جے پی کو دونوں ہی ریاستوںمیں کانگریس کے مقابلے کم سیٹیں ملی تھیں لیکن اس نے اپنے ’ماسٹر اسٹروک‘ اور گورنر کے سرگرم حمایت سے دونوں ریاستوں میں سرکار بنا لی تھی ۔
پچھلی باردودھ کی جلی کانگریس اس بار چھاچھ کو پھونک – پھونک کر پی رہی ہے ۔ حالانکہ تمام ٹی وی چینلوں اور ایجنسیوں کے ایگزٹ پولس نے کانگریس کے لیے کوئی امکان ظاہر نہیں کیا ہے، لیکن کانگریس کی اعلیٰ قیادت نے ایگزٹ پول کے اندازوں کو مسترد کرتے ہوئے بہت محتاط ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ اترپردیش کے علاوہ دیگر چار ریاستوں میں کانگریس حکومت بنا سکتی ہے۔
لیکن اس امید کے ساتھ ساتھ یہ خدشہ بھی ہے کہ بی جے پی اپنے پانچ سال پرانے کھیل کو اس بار پانچوں انتخابی ریاستوں میں دہرائے گی۔ اس لیے اس نے ایسی صورتحال سے نمٹنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ وہ اس بار بی جے پی کو ایسا کوئی موقع نہیں دینا چاہتی کہ وہ کسی بھی طرح سے کانگریس ایم ایل اے کو توڑ سکے۔ اس کے لیے انتخابی نتائج کے فوراً بعد انتخابی ریاستوں سے نو منتخب کانگریس ایم ایل اے کو کچھ وقت کے لیے کانگریس کی حکومت والی ریاستوں چھتیس گڑھ اور راجستھان بھیجا جائے گا تاکہ پارٹی قیادت کے علاوہ کوئی ان تک نہ پہنچ سکے۔
اس سلسلے میں پارٹی کے غیر اعلانیہ صدر راہل گاندھی اور جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نے حال ہی میں اپنی پارٹی کے دو وزرائے اعلیٰ – راجستھان کے اشوک گہلوت اور چھتیس گڑھ کے بھوپیش بگھیل – کو دہلی بلایا اور انتخابی نتائج کے بعد کی ممکنہ صورتحال کے بارے میں تفصیل سے بات چیت کی ۔
اگر معلق اسمبلی بنتی ہے تو کانگریس ایم ایل ایز کو کیسے متحد رکھا جائے اور کس طرح دیگر مقامی سطح کی پارٹیوں سے بات کرکے حکومت بنانے کے لیے حمایت حاصل کی جائے۔
بتایا جاتا ہے کہ کانگریس قیادت نے پہلے ہی پارٹی کے کچھ لیڈروں کو منی پور اور گوا کی چھوٹی پارٹیوں سے بات کرنے میں مصروف کر دیا ہے۔
کانگریس قیادت کو لگتا ہے کہ اس بار پارٹی اتر پردیش کو چھوڑ کر باقی انتخابی ریاستوں میں حکومت بنا سکتی ہے۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں کے دوران، جس طرح سے مختلف ریاستوں میں کانگریس کے ایم ایل ایز بڑے پیمانے پر ٹوٹ کر بی جے پی میں چلے گئے ہیں، یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ پارٹی قیادت اب اپنی ریاستی اکائیوں اور علاقائی لیڈروں کو نہیں پکڑ رہی ہے۔ پارٹی قیادت کی اس کمزوری کی وجہ سے ہی بی جے پی ان کے ایم ایل اے کو توڑ کر مینڈیٹ کو ہائی جیک کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
غور طلب ہے کہ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس منی پور اور گوا میں سب سے زیادہ سیٹیں جیتنے کے بعد بھی سرکار نہیں بنا سکی تھی ، کیونکہ بڑے پیمانے پر اس کے ایم ایل ایز ٹوٹ کر بی جے پی کے ساتھ چلے گئے تھے۔ اس کے علاوہ مدھیہ پردیش اور کرناٹک میں بھی بی جے پی نے بڑی تعداد میں ایم ایل ایز کو توڑ کر کانگریس اور اس کے اتحادی پارٹی کی سرکار گرا دی تھی ۔
ایم ایل ایز کی خرید و فروخت کرکے ہی اس نے اتراکھنڈ میں بھی کانگریس کو نقصان پہنچایا تھا ۔ بی جے پی نے کانگریس میںتوڑ پھوڑ کرنے کی کوشش تو راجستھان میں بھی کی تھی اور اس کے لئے اس نے ای ڈی اور انکم ٹیکس محکمہ جیسی ایجنسیوں کا بھی سہارا لیا تھا ، لیکن وہاں وہ کامیاب نہیںہو پائی ۔
پانچ سال قبل 60 رکنی منی پور اسمبلی میں کانگریس نے 28 سیٹیں جیتی تھیں۔ اسے حکومت بنانے کے لیے صرف تین ایم ایل ایز کی حمایت درکار تھی، جسے حاصل کرنا اس کے لیے مشکل ہو رہا تھا۔
ایسے میں کانگریس ہائی کمان نے احمد پٹیل اور کچھ دوسرے لیڈروں کو منی پور بھیجا تھا۔ لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ وہ پی اے سنگما کے بیٹے کونراڈ سنگما کو ان کی حمایت کے لیے قائل نہیں کر سکے۔ بی جے پی کے پاس 21 ایم ایل اے تھے اور اس نے 10 ایم ایل ایز کی حمایت سے حکومت بنائی۔ بعد میں بی جے پی نے کانگریس کے کئی ایم ایل ایز کو بھی توڑ دیا۔
گوا میں بھی یہی کھیل دہرایا گیا۔ اس وقت کانگریس کے سینئر لیڈر ڈگ وجے سنگھ گوا کے انچارج تھے، لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ انہوں نے کس طرح کی سیاست کی، جسے بی جے پی نے اکثریت سے دور اور کانگریس کے پیچھے رہنے کے باوجود حکومت بنائی، اور بعد میں کانگریس بھی اپنی حکومت قائم نہ رکھ سکی۔اس کے تقریباً سارے ایم ایل ایز پالا بدل کر بی جے پی کے ساتھ چلے گئے ۔
ان ریاستوں کے گورنروں نے بھی اس وقت منی پور اور گوا میں کانگریس کو اقتدار سے دور رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ دونوں ریاستوں میں کانگریس واحد سب سے بڑی پارٹی تھی اور قائم شدہ اور منظور شدہ کنونشنز کے مطابق گورنر کو کانگریس کو حکومت بنانے کی دعوت دینی چاہیے تھی لیکن انہوں نے ایسا کرنے کے بجائے بی جے پی کو اکثریت حاصل کرنے کے لیے جوڑ توڑ کی کوشش کی اور پورا موقع دیا۔
اس بار پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج سے پہلے کانگریس قیادت جس طرح سنجیدگی سے تیاری کر رہی ہے، اگر ایسی مستعدی پانچ سال پہلے دکھائی ہوتی تو منی پور اور گوا میں اس کی حکومت بن چکی ہوتی۔ لیکن اس وقت کانگریس اپنی لاپروائی کی وجہ سے دو ریاستیں گنوا چکی تھی۔
سیاسی جماعتیں اکثر اپنے ایم ایل ایز کو دوسری ریاستوں میں بھیجتی رہی ہیں کیونکہ انتخابات کے بعد معلق اسمبلی بننے کی صورت میں ان کی پارٹی میں پھوٹ پڑ سکتی ہے۔ لیکن گزشتہ چند سالوں کے دوران جس طرح سے بی جے پی نے کئی ریاستوں میں کانگریس کے ایم ایل ایز کو مسلسل توڑا ہے اس سے سبق لیتے ہوئے اب کانگریس محتاط ہوگئی ہے اور وہ کسی قسم کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی ہے۔ اسی لیے کانگریس ہائی کمان نے انتخابی نتائج آتے ہی اپنے نو منتخب ایم ایل ایز کو بی جے پی کے ’ماسٹر اسٹروک‘ سے بچانے کے لیے راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اپنے نو منتخب ایم ایل ایز کو محفوظ مقامات پر لے جانے کی تیاری شروع کردی ہے۔
(بشکریہ :ستیہ ہندی )